سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(393) امام مسجد اوپر ہو اور مقتدی نیچے ہوں تو یہ مانع نماز ہے یا نہیں؟

  • 2678
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 4501

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام تنہا مسجد کے سائبان میں داسے پر کھڑا ہو اور مقتدی سب کے سب صحن مسجد میں نیچے کھڑے ہوں تو اس قدر بلندی اور پستی امام و مقتدی کی مانع اقتدا ہے یا نہیں حدیث اور فقہ سے جواب دیجیے اور اختلاف احادیث او رائمہ اجتہاد جو اس میں ہوں اس سے مطلع فرمائیے۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس باب میں حدیثیں مختلف وارد ہوئی ہیں اور علمائے اجتہاد کے اقوال بھی مختلف ہیں لیکن احادیث اور اقوال ائمہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت اقتداء اور امامت کی سب کے نزدیک جائز ہے۔
اما الاحادیث فعن سہل بن سعد ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلس علی المنبر فی اول یوم وضع فکبر وہو علیہ ثم رکع ثم نزل القہقری فسجد و سجد الناس معہ ثم عاد حتی فرغ فلما انصرف قال ایہا الناس انما فعلت ذلک لتاتمو ابی ولتعلموا صلوتی متفق علیہ
پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ امام اگر اونچی جگہ پر کھڑا ہو اور مقتدی سب کے سب نیچے ہوں تو اقتداء اور امامت اور نماز درست ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے اور اپنی کتاب صحیح میں وہ اسی جواز کے قائل ہوئے ہیں اور اسی حدیث سے استدلال کیا ہے اور ان کے اتباع اور موافقین بھی ہیں اور ان کے نزدیک بھی یہی حدیث اس کے جواز کی حجت ہے۔
وعن ہمام عن حذیفة ام الناس بالمدائن علی وکان فاخذ ابو مسعود بقمیصہ فجذبہ ظلما فرغ من صلوة قال الم تعلم انہم کانوا ینہون عن ذلك قال بلی قد ذکرت ذلك حین مددتنی رواہ ابو داؤد و صححہ ابن خزیمة وابن حبان والحاکم وقواہ الحافظ فی التلخیص وعن ابی مسعود قال نہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقوم الامام فوق شئی والناس خلفہ یعنی اسفل منہ رواہ دارقطنی لکن المرفوع ضعیف
پس یہ دونوں حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ امام اونچی جگہ پر کھڑا ہو اور مقتدی سب کے سب نیچے ہوں تو یہ امر ناجائز اور ممنوع ہے اور یہی مذہب حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ رحمہم اللہ کا اور یہی حدیثیں ان کی دلیل ہیں پس یہی ہے خلاصہ مذاہب اور اولہ اس مسئلہ کا۔ تطبیق بین الاحادیث۔ حدیث صلوٰۃ علی المنبر کی محمول ہے تھوڑی سی بلندی کے جواز پر اور حدیث نہی عن الرفع کی محمول ہے زیادہ بلندی پر جس کی تقدیر میں علما نے اپنی اپنی رائے الگ قائم کی ہے۔ پس دونوں حدیثوں کے ملانے سے یہ بات قائم ہوئی کہ ارتفاع قلیل امام کے لیے جائز ہے اور ارتفاع کثیر ممنوع ہے۔
تطبیق بین الاقوال الائمة رحمہم اللہ تعالیٰ
امام بخاری اور ان کے موافقین و اتباع رحمہم اللہ نے جو امام کا بلند جگہ پر کھڑا ہونا جائز کہا ہے تو اس سے بلندی ایسی مراد ہے جس سے امام کا حال مقتدیوں سے مخفی نہ رہے اور حنفیہ اور مالکیہ اور شافعیہ وغیرہ علما نے مطلق بلندی کو ناجائز کہا ہے سو ان لوگوں کا قول محقق نہیں ہے ۔
فی نیل الاوطار وذہب الشافعی الا انہ یعفی قدر ثلاث ماتہ ذراع وقال عطاء لا یضر البعد فی الارتضاع مہما علم الموتم بحال الامام وقال فی الدر المختار (یکرہ) انفراد الامام علی الدکان للنہی وقدر الارتفاع بذراع ولا باس بما دونہ وقیل ما یقع بہ الامتیاز وہو الا وجہ ذکرہ الکمال وغیرہ وکرہ عکسہ فی الاصح وقال فی العالمگیریۃ ویکرہ ان یکون الامام وحدہ علی الدکان وکذا القلب فی ظاہر الروایة کذا فی الہدایة وان کان بعض القوم معہ فالا صح انہ لا یکرہ کذا فی محیط السرخسی ثم قدر الارتفاع قامة ولا باس بما دونہا ذکرہ الطحاوی وقیل ان مقر بہ الامتیاز وقیل مقدار الذراع اعتبار بالسترة وعلیہ الاعتماد کذا فی التبیین و فایة البیان وہوا الصحیح کذا فی البحر الرایق
پس اب واضح ہو گیا کہ احادیث اور اقوال رجال امت اگرچہ باہم بظاہر مختلف معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ درحقیقت سب کے سب ادائے معنی میں متحد ہیں اور احادیث کا مفاد بھی یہی ہے کہ امام کا تنہا اکیلا تھوڑی سی بلندی پر کھڑا ہونا مضر نہیں ہے بلکہ درست اور جائز ہے اور زیادہ بلندی پر کھڑا ہونا ممنوع اور ناجائز ہے اور رجال امت کے اقوال کا مفاد بھی یہی ہے کہ غایۃ الامر علماء نے تقدیر بلندی و پستی جائز و ناجائز میں اختلاف کیا ہے۔ نتیجہ کلام کا یہ ہوا کہ امام اکیلا مسجد کے سائبان میں داسے پر کھڑا ہو اور سب مقتدی صحن مسجد میں نیچے کھڑے رہیں تو حدیث کے رو سے یہ امر جائز ہے اور علمائے حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ محققین رحمہم اللہ کے سب کے نزدیک یہ امر جائز ہے جیسا کہ تطبیق احادیث اور اقوال بالا سے واضح ہو گیا ہے اور امام المحدثین جناب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے موافقین و اتباع رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ہذا ما ظہر لنا واللہ اعلم بالصواب ومنہ الاصابۃ فی کل باب حدیث بخاری سے جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ صورت اگر ناجائز ہوتی تو ناجائز صورت سے تعلیم نہ کرتے اس سے ابن دقیق العبد کے اعتراض کا جواب بھی ہو گیا ہاں اولیٰ و افضل یہی ہے کہ امام بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو اور حدیث نہی محمول خلاف اولیٰ پر ہے کما ہوا واب العلماء کافستر فی التبطیق بین الاحادیث واللہ اعلم بالصواب۔
(حررہ العاجز ابو عبد الرحمن محمد عفی عنہ مصحح مطبع انصاری) (الامر کما قال سید محمد نذیر حسین عفی عنہ۔ فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۳۲۱)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 215۔217
محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ