الحمد للہ.
مباہلے کا مطلب یہ ہے کہ: جب لوگوں کا کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو تو وہ ایک جگہ جمع ہو کر کہیں: "ہم میں سے جو ظالم ہو اس پر اللہ کی لعنت"
دیکھیں: "لسان العرب" (11 /71)
حق بات ثابت کرنے اور باطل کو شکست خوردہ کرنے کیلیے مباہلہ کرنا شرعی طور پر جائز ہے، مباہلے میں حق بات ثابت ہو جانے کے باوجود بھی اسے نہ ماننے والے پر حجت قائم کی جاتی ہے، مباہلہ جائز ہونے کی دلیل آیت مباہلہ ہے، اور وہ یہ ہے:
( فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ )
ترجمہ: پھر اگر کوئی شخص علم (وحی) آ جانے کے بعد اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ اسے کہہ دو: آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلا لیں اور خود بھی حاضر ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ "جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو "[آل عمران :61]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب اہل باطل بحث و مباحثہ کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے حجت قائم ہونے پر بھی باطل نظریے سے رجوع نہ کریں بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہیں تو انہیں مباہلے کی دعوت دینا سنت ہے، اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا، اور پھر یہ نہیں فرمایا کہ مباہلہ آپ کے بعد آپ کی امت نہیں کر سکتی" ختم شد
"زاد المعاد" (3 /643)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کرنا آپ کا خاصہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کیلیے عام ہے چاہے وہ مباہلہ عیسائیوں سے کریں یا کسی اور سے؛ کیونکہ شرعی احکام اصلاً عام ہوتے ہیں۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہونے والا مباہلہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے کیا تھا یہ آیت کا جزوی عملی نمونہ ہے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مباہلہ صرف عیسائیوں سے ہی ہو سکتا ہے" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (4 /203-204)
مباہلہ کرنے کیلیے کچھ شرائط ہیں ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:
- مباہلہ کرتے ہوئے نیت اللہ کیلیے خالص ہو؛ نیز مباہلہ کرنے کا مقصد حق بات ثابت کرنا اور اہل حق کی تائید ہو، اسی طرح باطل کو مٹانا اور اہل باطل کو رسوا کرنا مطلوب ہو؛ لہذا مباہلہ کسی ایسی غرض کیلیے نہیں ہو سکتا جس میں غصہ نکالنا، شہرت پانا ، ہوس پرستی یا اسی طرح کے دیگر اہداف ہوں۔
- مباہلہ مخالف پر حجت قائم ہو جانے اور اس کے سامنے حق بات واضح دلائل اور قطعی براہین بیان کرنے کے بعد ہو۔
- مخالف سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ وہ باطل پر ڈٹا ہوا ہے، حق بات ماننے کیلیے تیار نہیں ہے اور وہ محض انا پر اڑا ہوا ہے؛ کیونکہ مباہلہ مخالف پر اللہ کی لعنت اور غضب نازل ہونے کا باعث ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی لعنت اور غضب نازل ہونے کی بد دعا اسی شخص کے بارے میں ہو سکتی ہے جو ہٹ دھرم اور سخت معاند ہو۔
- مباہلہ کسی اہم ترین دینی معاملے پر ہو، نیز مباہلہ کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کی امید ہو، یا مخالف شخص کے شر سے تحفظ ملنے کا امکان ہو، لہذا مباہلہ کسی ایسے اجتہادی مسئلے پہ نہیں ہو سکتا جس میں اختلاف کی گنجائش پائی جائے۔
احمد بن ابراہیم "شرح قصیدہ ابن قیم " (1 /37) میں لکھتے ہیں:
"مباہلے کے بارے میں بعض علمائے کرام نے کتاب و سنت، آثار اور اہل علم کی گفتگو کی روشنی میں اس کی شرائط مرتب کی ہیں، ان شرائط کے بارے میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ: مباہلہ صرف کسی ایسے شرعی معاملے میں جائز ہے جس کے بارے میں سخت اختلاف اور جھگڑا کھڑا ہو گیا ہو اور اس جھگڑے کا خاتمہ صرف مباہلے سے ہی ممکن ہو، اس لیے مباہلہ کرنے کیلیے شرط لگائی جاتی ہے کہ یہ حجت قائم کرنے اور شبہے کا ازالہ کرنے کی کوشش کے بعد ہو ، مباہلے سے پہلے نصیحت اور سنگینی بیان جا چکی ہو اور پھر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو، نیز مباہلہ کرنے کے لیے مباہلے کی اشد ضرورت کا ہونا بھی لازمی ہے" ختم شد
واللہ اعلم.