الحمد للہ.
اول:
فرمان باری تعالی ہے: وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلَكِ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل کسی بھی بشر کے لیے ہمیشہ کی زندگی نہیں لکھی ۔ کیا پس اگر آپ فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ رہیں گے؟ ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے، اور ہم تمہیں برائی اور اچھائی ہر طرح سے آزماتے ہیں ، اور ہماری طرف ہی تم لوٹائے جاؤ گے۔[الانبیاء: 35]
مذکورہ بالا آیت محکم ہے، اور اس آیت کے ہم معنی قرآن کریم کی دیگر بہت سی آیات ہیں، جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی: أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ ترجمہ: تم جہاں بھی ہو گے موت تمہیں پا لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ [النساء: 78] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
"یعنی لا محالہ تم نے مرنا ہی ہے، تم میں سے کوئی بھی اس سے نجات نہیں پا سکتا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وِالإكْرَامِ
ترجمہ: اس دھرتی پر ہر چیز نے فنا ہونا ہے، اور صرف تیرے رب کی ذات ذوالجلال و الاکرام باقی رہنے والی ہے۔[الرحمن: 26، 27]
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
ترجمہ: ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔[آل عمران: 185]
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلَكِ الْخُلْدَ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل کسی بھی بشر کے لیے ہمیشہ کی زندگی نہیں بنائی۔[الانبیاء: 34]
ان تمام آیات میں مقصود یہ ہے کہ ہر ایک چیز نے لا محالہ مرنا ہی ہے، موت سے کوئی بھی چیز بچنے والی نہیں ہے چاہے وہ اس کے لیے کوشش کرے یا نہ کرے، ہر چیز کی ایک حتمی عمر اور مدت متعین ہے۔" تفسیر ابن کثیر: (2/ 360)
تو آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ:
"بنی آدم میں سے کسی کو بھی ہم نے دنیا میں ہمیشہ کی زندگی نہیں دی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) آپ کو بھی ہم اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی دیں۔ چنانچہ اگر آپ فوت ہو جاتے ہیں تو کیا یہ مشرکین آپ کے بعد دنیا میں ہمیشہ رہیں گے؟! تو تقدیری عبارت کچھ یوں ہو گی: (أَهُمُ الْخَالِدُوْنَ إِنْ مِتَّ)"
مزید کے لیے دیکھیں: "الهداية" از مکی ؒ(7/ 4754) اور اسی طرح "التفسير البسيط" (15/ 69)۔
تو آیت میں مذکور "خلد" کا مطلب ہے: دنیا میں ہمیشہ کی زندگی۔
دوم:
عیسی علیہ السلام کو اگرچہ اللہ تعالی نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور انہیں ان کے کافر دشمنوں سے محفوظ کر دیا وہ پھر بھی اس وقت آسمان میں زندہ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی قیامت سے قبل یقینی طور پر فوت ہوں گے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ بات قرآن کریم میں بالکل صریح الفاظ میں موجود ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
ترجمہ: تمام اہل کتاب ان [عیسی علیہ السلام ]کی طبعی موت سے قبل ان پر ضرور ایمان لائیں گے، اور وہ قیامت کے دن ان کے خلاف گواہی بھی دیں گے۔ [النساء: 159]
ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر (2/ 454) میں لکھتے ہیں کہ:
"[اس مسئلے میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد] ابن جریر کہتے ہیں: ان تمام اقوال میں سے صحیح ترین قول پہلا قول ہے، اور وہ یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد اہل کتاب میں سے کوئی بھی ان پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکے گا، سب کے سب سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائیں گے۔
بلا شبہ ابن جریر رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے وہی صحیح ہے؛ کیونکہ آیات کا سیاق اس بات کا متقاضی ہے کہ یہودیوں کے دعوائے قتل ِعیسی اور سولی دینے کے دعوے کی تردید ہو اور ان کے اس دعوے کو تسلیم کرنے والے جاہل عیسائیوں کا بھی رد ہو، اس لیے اللہ تعالی نے یہ واضح بتلا دیا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کا معاملہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ انہوں نے سیدنا عیسی جیسی شکل رکھنے والے شخص کو قتل کیا ہے اور انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہوا، پھر اللہ تعالی نے یہ بھی بتلا دیا کہ سیدنا عیسی کو اللہ تعالی نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے، وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور موجود ہیں، وہ قیامت سے قبل ضرور نازل ہوں گے، اس بارے میں صحیح متواتر روایات موجود ہیں اور ہم ان سب روایات کو بیان بھی کریں گے ان شاء اللہ۔ سیدنا عیسی علیہ السلام جب آئیں گے تو دجال کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز نظام جزیہ ختم ہو جائے گا، مطلب یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کسی سے بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہیں کریں گے، تو لوگوں کے پاس دو ہی اختیار ہوں گے: اسلام قبول کریں یا قتل ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔
تو اس آیت نے یہ بتلایا ہے کہ اُس وقت تمام اہل کتاب سیدنا عیسی علیہ السلام پر اس وقت ایمان لے آئیں گے، کوئی ایک عیسائی بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی تصدیق سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا کہ: وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ترجمہ: تمام اہل کتاب ان کی طبعی موت سے قبل ان پر ضرور ایمان لائیں گے [ النساء: 159] یعنی انہی عیسی علیہ السلام کی موت سے قبل جن کے بارے میں یہودیوں اور ان کے ہمنواؤں نے قتل اور سولی چڑھانے کا دعوی کیا ہے۔
وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ترجمہ: اور وہ قیامت کے دن ان کے خلاف گواہی بھی دیں گے۔ [النساء: 159] یعنی ان عیسائیوں نے سیدنا عیسی کے آسمانوں پر اٹھائے جانے سے پہلے اور ان کے نازل ہونے کے بعد جو کام ان کے سامنے کیے تو ان کے بارے میں گواہی بھی دیں گے۔ " ختم شد
علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے آخری زمانے میں نازل ہونے کے بارے میں حکمت ہے ، چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کہتے ہیں کہ: صرف عیسی علیہ السلام کو ہی نازل کیا جائے گا کسی اور کو نہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ یہود کا اس میں رد ہے کہ ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے عیسی علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا، تو اللہ تعالی نے ان کے جھوٹ کو آشکار کر دیا اور یہ بھی بتلایا کہ خود سیدنا عیسی علیہ السلام ان یہود کا قتل کریں گے۔
یا پھر عیسی علیہ السلام کا نزول اس لیے ہو گا کہ ان کا وقت قریب آ چکا ہو گا تا کہ جب فوت ہوں تو انہیں بھی زمین میں دفن کیا جائے؛ کیونکہ مٹی سے پیدا ہونے والی مخلوق مٹی کے علاوہ کہیں نہیں فوت ہو سکتی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: سیدنا عیسی علیہ السلام نے جس وقت جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کی امت کو دیکھا تو دعا کی کہ اللہ تعالی انہیں بھی امت محمدیہ میں شامل فرما دے، تو اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی، اور انہیں آخری زمانے میں نازل ہونے تک باقی رکھا، جب وہ نازل ہوں گے اسلام کی تجدید کریں گے اور اسی دوران دجال بھی نکلے گا جسے سیدنا عیسی علیہ السلام قتل کریں گے۔" ختم شد
فتح الباری : (6/ 493)
سوم:
سیدنا عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد دنیا میں قیام کی مدت کتنی ہو گی؟ اس بارے میں بعض روایات کے اندر آتا ہے کہ وہ 7 سال تک ٹھہریں گے، جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ وہ چالیس سال تک ٹھہریں گے اور پھر ان کی وفات ہو گی، مسلمان ان کا جنازہ ادا کریں گے، جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو اللہ تعالی سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا ۔۔۔ پھر لوگ سات سال تک رہیں گے اور کہیں دو لوگ بھی ایسے نہیں ہوں گے جن کے دلوں میں عداوت ہو، پھر اللہ تعالی شام کی جانب سے ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں بچے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی خیر ہو یا ایمان ہو ، وہ ہوا سب کی روح قبض کر لے گی)
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سابقہ حدیث یوں مروی ہے کہ: (عیسی علیہ السلام زمین پر چالیس سال تک ٹھہریں گے، اور پھر ان کی وفات ہو گی اور مسلمان ان کا جنازہ ادا کریں گے۔)
بہ ہر حال سیدنا عیسی علیہ السلام کے ٹھہرنے کی مدت کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخر کار ان کی وفات ہو گی، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، قیامت قائم ہونے سے قبل یہ معاملہ ہو کر رہے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
ترجمہ: تمام اہل کتاب ان کی طبعی موت سے قبل ان پر ضرور ایمان لائیں گے، اور وہ قیامت کے دن ان کے خلاف گواہی بھی دیں گے۔ [النساء:159]
سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کے متعلق صراحت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی موجود ہیں کہ: (پھر انہیں فوت کیا جائے گا، اور ان کی نماز جنازہ مسلمان ادا کریں گے۔)
اس روایت کو امام احمد: (9270) اور ابو داود: (4237) نے روایت کیا ہے۔
اگر قرآن کریم کی واضح نص سے ثابت ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی قیامت سے قبل وفات لازمی ہو گی، مسلمانوں کا اس معاملے میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے؛ تو اس کا اس بات سے کوئی تضاد بنتا ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ چنانچہ ہر زندہ چیز نے مرنا ہے، صرف وہی ذات بچے گی جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی؛ کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی مدت بقا اگرچہ لوگوں کی عمومی مدت سے کافی لمبی ہے لیکن پھر بھی محدود ہے، بلکہ دنیا کی پوری عمر کے مقابلے میں نہایت مختصر ہے تو دائمی اخروی زندگی کے ساتھ تو اس کا مقابلہ ہی نہیں بنتا۔ تو یہی وہ بات ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کے لیے دنیا میں ہمیشہ کی زندگی نہیں لکھی، ہمیشہ کی زندگی تو اللہ تعالی آخرت میں دے گا جب لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
واللہ اعلم