الحمد للہ.
عربی زبان میں تغابن کا لفظ "غبن" سے بنا ہے، جس کا معنی ہوتا ہے خرید و فروخت میں نقصان ہونا۔
جیسے کہ امام فیومی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عربی زبان میں کہا جاتا ہے: {غَبَنَهُ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ غَبْنًا} یعنی خرید و فروخت میں اسے نقصان ہوا ، یہ لفظ باب ضَرَبَ کے وزن پر ہے، اسی طرح بولا جاتا ہے کہ: { غَلَبَهُ فَانْغَبَنَ} یعنی فلاں نے اس کو نقصان دیا تو اس کا نقصان ہو گیا، ایسے ہی لفظ { غَبَنَهُ} کا مطلب ہے کہ فلاں نے اس کا نقصان کیا ، جب یہی لفظ مجہول بولا جائے گا تو قیمت یا کسی اور چیز میں کمی مراد ہو گی ، جبکہ لفظ { الْغَبِينَةُ} اسی باب سے اسم ہے، نیز { غَبِنَ رَأْيَهُ غَبَنًا} یہ باب سمع سے ہے ، اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی کی رائے میں وزن نہ رہے، اور انسان کی فطانت و ذہانت میں کمی آ جائے۔" ختم شد
"المصباح المنير" (442)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ "مختار الصحاح " مادہ: ( غ ب ن ) دیکھیں، ص: (224)، اسی طرح : "القاموس المحيط" سے فصل غین، ص: (1/1219) پر ملاحظہ کریں۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عربی زبان میں غبن کسی چیز میں نقصان کے شعور کو کہتے ہیں، اسی طرح کا ایک اور لفظ عربی زبان میں مستعمل ہے اور وہ ہے: { خبن} یعنی لفظی طور پر بھی ان دونوں لفظوں کے تین میں سے دو حروف یکساں ہیں ، تو فقہ اللغہ کے مطابق ان کا معنی بھی قریب قریب ہے، جیسے ان کے مختلف حروف آپس میں قریب ہیں بعینہٖ ان کا معنی بھی قریب ہے، یعنی غین اور خاء جس طرح ادائیگی کے وقت ظاہر اور مخفی ہوتے ہیں کہ غین ، خاء کی بہ نسبت گلے میں زیادہ خفیہ ہوتا ہے تو اسی { غبن} کا لفظ { خبن } سے زیادہ خفیہ نقصان پر بولا جاتا ہے، جبکہ { خبن } کا لفظ واضح اور ظاہر نقصان پر بولا جاتا ہے۔ " ختم شد
اسی معنی کی بنیاد پر قیامت کے دن کو { يوم التغابن } کہا گیا ہے کہ اس دن کافر اور گمراہ لوگوں کا خفیہ نقصان ظاہر ہو گا کہ انہوں نے اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ دیا، تو ان کی تجارت کا خسارہ اور تباہی ظاہر ہو گئی۔
علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"{ الغَبْنُ} کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھ معاملات طے کرنے والے کو خفیہ طور پر نقصان پہنچا دیں، اگر تو یہ مالی معاملے میں ہو تو { غَبَنَ فلانٌ} کہتے ہیں، اور اگر یہ رائے اور بات چیت میں ہو تو { غَبِنَ فلانٌ} کہتے ہیں، اور { غَبِنْتُ كذا غَبَناً} اس وقت کہتے ہیں جب آپ کو اس خفیہ نقصان کا علم نہ ہو اور آپ ا ن خفیہ نقصانات کو شمار کریں۔
اور قیامت کے دن کو "یوم تغابن" کہا گیا ہے کہ اس دن اللہ تعالی کے فرمان میں مذکور خرید و فروخت میں نقصان ظاہر ہو گا، اللہ کا وہ فرمان یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی جانوں کو رضائے الہی کی تلاش میں فروخت کر دیتے ہیں۔[البقرۃ: 207] ، اور ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔۔۔ ترجمہ: اللہ تعالی نے مومنوں سے ان کی جانوں کو خرید لیا ہے۔[التوبہ:111] اسی طرح الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا ترجمہ: وہ لوگ اللہ تعالی سے کیے ہوئے وعدے اور ایمان کو بیچ کر تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں۔[آل عمران: 77] تو قیامت کے دن یہ لوگ جان لیں گے کہ بطور قیمت جو چیز انہوں نے دی اس میں انہیں نقصان ہوا، اور جو چیز انہوں نے لی وہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
کچھ اہل علم سے یوم تغابن [نقصان کے دن]کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا: اس دن چیزیں دنیا میں لگائے گئے اندازوں سے بالکل مختلف نظر آئیں گی۔
بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ: بنیادی طور پر { الْغُبْن} کسی چیز کو چھپانے پر بولا جاتا ہے، جبکہ { الْغَبَنُ} یعنی باء پر زبر کے ساتھ، تو اس کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں پر کوئی چیز چھپ جائے، کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
ولم أر مثل الفتيان في غَبَنِ ال ... أيام ينسون ما عواقبها
ترجمہ: میں نے ماضی کے جھروکوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو بھول جانے میں بچوں جیسا کوئی نہیں دیکھا"
"المفردات في غريب القرآن" (602)
معجم طبرانی (23/419)میں حسن سند کے ساتھ علی بن ابو طلحہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ: ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُن اس آیت میں قیامت کے دن کا نام ہے، اس نام سے اس دن کی عظمت اور لوگوں کو اس دن سے خبردار کرنا مقصود ہے۔
اسی طرح مجاہدؒ سے بھی صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ فرمانِ باری تعالی : ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُن میں اہل جنت اور اہل جہنم کے غبن کی وجہ سے اس دن کو یوم تغابن کہا گیا ہے۔
اسی طرح قتادہؒ سے مروی ہے کہ: يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ اس د ن سے مراد قیامت کا دن ہے، اسی کو یوم تغابن کہا گیا ہے، یعنی وہ دن جس میں اہل جنت اور اہل جہنم کا نقصان عیاں ہو گا۔
اور ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُن سے مراد: اہل جنت اور اہل جہنم کے نقصان کا دن ہے، ہمارے اس موقف کے مطابق کئی مفسرین نے اس آیت کی تفسیر بیان کی ہے۔" ختم شد
امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ اس سے مراد قیامت کا دن ہے کہ اس دن آسمانوں اور زمین کے تمام مکینوں کو جمع کرے گا، اور یہی دن یوم تغابن ہے، لفظ تغابن { الغَبْنُ} سے بنا ہے، جس کا معنی ہوتا ہے اپنے حصے کا چوک جانا، تو یہاں ایسا شخص مراد ہے جو جنت میں اپنے اہل و عیال اور بنگلوں کو حاصل نہ کر سکے اور ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس دن ہر کافر کا خسارہ عیاں ہو گا، اسی طرح ہر مسلمان کا خسارہ بھی عیاں ہو گا کہ مومن نیکیوں میں کمی کا شکار رہا۔" ختم شد
"تفسیر بغوی" (5/ 104)
امام قرطبی ؒ کہتے ہیں:
"قیامت کے دن کو یوم تغابن سے موسوم کیا گیا ہے؛ کیونکہ اس د ن میں اہل جنت اور اہل جہنم سب کا تبادلے کی وجہ سے نقصان عیاں ہو گا، یعنی اہل جنت ؛ جہنم کی بجائے جنت لے جائیں گے اور اہل جہنم ؛ جنت کی بجائے جہنم لے جائیں گے، اس طرح وہ خیر کو شر کے بدلے، اچھے کو برے کے بدلے اور نعمت کو عذاب کے بدلے لے جائیں گے اس طرح ان کا غبن ظاہر ہو جائے گا۔" ختم شد
"تفسیر قرطبی" (18/ 136)
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام نے یہاں پر غبن کی حقیقت واضح کی ہے کہ ہر انسان کی جنت میں بھی جگہ ہے اور جہنم میں بھی جگہ ہے، چنانچہ جب اہل جہنم آگ میں چلے جائیں گے تو ان کی جنت میں جگہ خالی رہے گی، اور اسی طرح جب اہل جنت ؛ جنت میں چلے جائیں گے تو ان کی جہنم والی جگہ خالی رہے گی۔ تو اب جنت میں جانے والوں کے جہنمی گھر جہنمیوں کو مل جائیں گے، جہنمیوں کے جنت میں موجود مکانات جنتیوں کو مل جائیں گے تو اس طرح انتہائی المناک تبادلہ ہو گا کہ جنت کی جگہ کے بدلے جہنم میں جگہ ملے اور جہنم میں جگہ کے بدلے جنت میں جگہ ملے۔" ختم شد
"أضواء البيان" (8/ 201)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم میں ایک سورت ہے اس کا نام سورت تغابن ہے، تو اس کا کیا معنی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"تغابن کا مطلب ہے کہ کسی پر غبن کے ذریعے غلبہ پانا، اللہ تعالی نے اس سورت میں بتلایا ہے کہ ایک دن غبن والا ہے، جو کہ قیامت کا دن ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ترجمہ: وہ اجتماع کے دن تمہیں جمع کرے گا ، یہی دن ہے ایک دوسرے پر غلبہ پانے کا۔[التغابن: 09] تو حقیقی غبن تو آخرت میں ہو گا کہ ایک گروہ جنت میں اور دوسرا گروہ جہنم میں، چنانچہ دنیا میں ہونے والا غبن آخرت میں ہونے والے غبن سے کہیں زیادہ ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً ترجمہ: دیکھیں ہم نے انہیں ایک دوسرے پر کس طرح فضیلت دی ہے، یقینی طور پر آخرت درجات اور فضیلت کے اعتبار سے بہت بڑی ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (5/ 2) شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق
واللہ اعلم