الحمد للہ.
اول:
علم صرف انہی اہل علم سے حاصل کرنا چاہیے جن کے پاس صحیح علم ہو، علم کی بقا علمائے کرام کی بقا کے ساتھ منسلک ہے، چنانچہ جس وقت اللہ تعالی علم قبض کرنا چاہے گا تو علمائے کرام کو قبض کر لے گا، جیسے کہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں (1/ 14) محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یقیناً یہ علم دین ہے، لہذا اچھی طرح اطمینان کر لو کہ تم کن سے اپنا دین لے رہے ہو"
دوم:
حسن سلوک والدین کا اپنی اولاد پر حق ہے، اگرچہ والدین نے بچوں کی تربیت اور اخراجات میں کوتاہی کی ہو۔
جبکہ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ والد اپنے بچے کے حق میں کوتاہی کرے تو بچے کی تربیت میں کمی کا گناہ والد پر ہو گا، اور اس پر اس کا مؤاخذہ بھی ہو گا، لیکن پھر بھی والد کی نافرمانی کے لیے گنجائش کا باعث نہیں بن سکتا؛ کیونکہ والد کی نافرمانی کبیرہ ترین گناہ ہے۔
اگر والد ، اولاد کے حق میں کوتاہی برتے اور اس پر بچے کے لیے والد کی نافرمانی اور بے ادبی کرنا جائز ہو جائے تو مسلمانوں کے گھر اجڑ جائیں گے، بچے معمولی سے معمولی شبہ پر بھی والد کی نافرمانی کرنے لگیں گے، اور اولاد والدین کی نافرمانی کے لیے اسے ذریعہ بھی بنا لیں گے۔ بچے کہیں گے کہ: میرے والد نے مجھے میرا حق نہیں دیا ، والدہ نے بھی میرے ساتھ نا انصافی کی ہے اس لیے دونوں کی نافرمانی میرا حق ہے! بچے یہ سمجھیں گے کہ والدین کا ان پر کوئی حق ہی نہیں ہے، اس طرح تو پورا گھرانہ اور پھر سماج تباہ ہو جائے گا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک نوجوان کے بارے میں پوچھا گیا کہ نوجوان کے دعوے کے مطابق والد نے اس کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا، والد نے بچپن میں بھی اسے کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ والد کے پاس مکمل استطاعت تھی کہ اپنے بچے پر خرچ کرتا، تو کیا پھر بھی بچے پر والد کے ساتھ حسن سلوک واجب ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں، بچے پر لازم ہے کہ اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، والد کے حقوق جانے، اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے چاہے والد نے اس کے حقوق ادا نہیں کیے، چاہے والد حقیقی معنوں میں کوتاہی کا شکار رہا؛ والد اللہ تعالی سے توبہ کرے، اپنے بچے کی تربیت کے حوالے سے والد کمی کا شکار رہا ہے اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگے، لیکن اس سب کے باوجود بیٹے کے لیے یہ گنجائش نہیں بن سکتی کہ وہ والد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آئے؛ بلکہ بیٹے پر واجب ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، اللہ تعالی نے کافر والدین کے حق کے متعلق سیدنا لقمان کے واقعہ میں وضاحت کی ہے کہ: (ان دونوں کے ساتھ دنیاوی معاملات میں حسن سلوک سے پیش آؤ) اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
اس لیے اولاد پر اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک، اچھا برتاؤ، نرمی، اور انتہائی اعلی اخلاق کے ساتھ پیش آنا لازم اور واجب ہے۔" ختم شد
ماخوذ از شیخ ابن باز ویب سائٹ
جبکہ اللہ تعالی کا فرمان: وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
ترجمہ: اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ : پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا تھا ۔[الاسراء: 24]
تو اس میں عام طور پر جو چیز معاشرے میں پائی جاتی ہے اسی کا تذکرہ ہے، یعنی عام طور پر والدین اپنے بچوں کو بڑے ناز و نم کے ساتھ پالتے ہیں، اس لیے اولاد پر لازم ہے کہ اپنے والدین کے لیے اللہ تعالی سے رحمت مانگے یعنی اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی کوشش کرے۔ تاہم ایسے والدین بہت کم اور شاذ و نادر ہوتے ہیں جو بچوں کا خیال نہیں رکھتے ، اور شاذ و نادر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
اگر اس آیت کا یہ مفہوم ذکر کرنے والے کی ہی بات کو دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر کسی بچے کی پیدائش کے بعد والدین فوت ہو جائیں ، یا دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو اب اس فوت ہو جانے والے کا اولاد کی دعا میں کوئی حصہ نہیں ہے؟! کیونکہ فوت ہو جانے والے نے بچپن میں پالا پوسہ نہیں ہے، تو جس نے بچے کی تربیت کی یا بچے پر خرچ کیا ہے وہی والدین دعا کے حق دار ہیں اور یہ موقف کسی کا بھی نہیں ہے۔
واللہ اعلم