الحمد للہ.
1 - ہمارے ہاتھوں میں قرآن کریم کے جو متداول نسخے ہیں اس کی صحت میں ہمارے ہاں کوئ ایک دو دلیلیں نہیں بلکہ وہ بہت سارے دلائل سے ثابت ہے جن پر مطلع ہونے والا شخص اس بات کا قطعی یقین کرلیتا ہے کہ یہ قرآن مجیدآج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اللہ تعالی نے نازل فرمایا تھا ۔
2 - نسلوں کے بعد نسلیں آتی رہیں اوراس قرآن کریم کی تلاوت کرتی اور اسے آپس میں ایک دوسر ے کو پڑھاتی رہیں ، اور لوگ اسے حفظ کرتے اور لکھتے رہے ان سے ایک بھی حرف نہ چھپا اور نہ ہی اس میں کسی ایک حرف کی حرکت کی بھی تغییر وتحریف کرسکا ، اور پھر اس کا لکھنا تو حفاظت کے وسائل میں سے ایک وسیلہ تھا ، اور اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید تو ان کے وسینوں میں محفوظ تھا ۔
3 – اور یہ بھی ہے کہ ہم تک صرف قرآن کریم ہی نقل نہیں ہوا کہ اس میں تحریف کا دعوی کیا جاسکے ، بلکہ ہم تک تو قرآن کریم کی آیات کی تفسیراور اس کے کلمات کے معانی ، اور اسباب نزول تک بھی نقل کۓ گۓ ہیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ کلمات کے اعراب اور اس کے احکامات کی شرح بھی نقل کی گئ ہے ۔
تو اب یہ بتائیں کہ اس طرح کی حفاظت اور نگہبانی کے ہوتے ہوۓ اس کتاب میں کیسے تحریف وتغیر ہوسکتی اور کیا کوئ ایک حرف بھی بدلا جا سکتا اور یا اس میں کوئ کلمہ زيادہ کیا جاسکتا اور یا پھر اس میں سے کوئ آيت ساقط ہوسکتی ہے ؟ ۔
4 - اور ان غیبی اور مستقبل کی اشیاء کا قرآن کریم میں بیان بھی اللہ تعالی نےاپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لۓ نازل فرمایا تا کہ یہ بیان ہوسکے کہ یہ قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل کرد ہے ، اور اگر انسان کوئ کتاب لکھنا چاہیں تووہ کسی حادثہ کی تصویر کھینچنے یا کوئ موقف نقل کرنے میں توبہتر طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں ، لیکن یہ کہ وہ کسی غیبی امور میں بات کریں تو سواۓ کذب بیانی اور اندازہ واٹکل کے کچھ نہیں کریں گے ۔
لیکن قرآن مجید نے یہ بتایا کہ فارسیوں کے مقابلہ میں رومیوں کو شکست ہوگی ، حالانکہ اس وقت ان لوگوں کے پاس ایسے وسائل نہیں تھے جو کہ اس وقوعہ کی خبر کونقل کریں ، اور پھر انہیں آیات میں یہ بھی بتایاگيا کہ رومی کچھ ہی مدت میں فارسیوں پر غالب ہوں گے ، ( تو پھر حقیقتا ہوا بھی ایسے ہی ) اگرایسا نہ ہوتا توکفار کے لۓ قرآن مجید میں طعن کا سب سے بڑاباعث ہوتا ۔
5 – اور اگر آپ اللہ تعالی کی کتاب عظیم میں سے ایک آیت لے کر امریکہ یا پھر ایشیا میں یاپھر افریقہ کے گھنے جنگلوں میں یااسے عرب کے صحراؤں میں جہاں بھی کچھ مسلمان بستے ہوں لے جائیں تو یہی آيت ان سب کےسے سینوں میں بالکل اسی طرح محفوظ پائيں گے اور اس میں کوئ ایک حرف بھی بدلا ہوا نہیں ہوگا ۔
تواب اس غیرمعروف اور مجھول نسخہ کی کیا قدروقیمت رہ جاتی ہے جو کہ یمن سےملا جسے ہم نے دیکھا بھی نہیں ، ممکن ہے کہ اس دور میں کسی سر پھرے نے کوئ آيت یا کلمۃ میں تحریف کردی ہو ؟
اورکیا اس طرح کی کلام بحث ونظر کے مقابلہ میں ٹھر سکتی ہے ؟ اور خاص ان لوگوں کے سامنے جو کہ بحث وانصاف اور عدل کا دعوی کرتے ہیں ؟۔
اوراگر ہم ان لوگوں کے معروف مؤلفین کی کتب موثوقہ میں سے کسی ایک کو لیں جس کے پوری دنیا میں بہت سے نسخے ایک ہی طرح کے پاۓ جاتے ہوں ، پھراگرکوئ یہ دعوی کرے کہ کسی ملک میں ایسا نسخہ پایا جاتا ہے جس میں ان دوسرے نسخوں سے کچھ زیادتی و نقصان ہے تو کیایہ اس کا اعتراف اور اعتبارکریں گے ؟
جو ان کا جواب ہوگا ہمارا بھی وہی جواب ہے ۔
6 – اور مسلمانوں کے ہاں خطی نسخے اس شکل سے ثابت نہیں ہوتے ، بلکہ ہمارے پاس تو ایسے قواعدو ضوابط ہیں جن سے خطی نسخے کا ثبوت کیا جاتا ہے ، وہ قواعد سماع اور قرآت ہیں جن پر سننے اور سنانے والے کا نام اور دستخط ثـبت ہوتے ہیں ۔
اور ہمارے خیال میں اس طرح کی کوئ چيز ( یعنی سننے اور سنانے والے کا نام اور دستخط ) اس نسخہ میں جو کہ یمن وغیرہ سے ملا ہے نہیں ہے ۔
7 – آخرمیں ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقی اور واقعی قصہ ذکر کرتے جائيں جو کہ دور عباسیہ میں وقوع پذیر ہوا جبکہ ایک یھودی نے چاہا کہ وہ ان کتابوں کے صدق کا پتہ چلاۓ جن کے ماننے والے انہیں اللہ تعالی کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اور وہ کتابیں یھودیوں کی تورات عیسائیوں کے ہاں انجیل اور مسلمانوں کےہاں قران مجید ہے ۔
اس یھودی نے تورات کا ایک نسخہ لیا اور اس میں کچھ کمی وزیادتی کر کے یھودی کاتب سے کہا کہ وہ اس کے کچھ نسخے تیارکردے ، تو کاتب نے یہ نسخے تیارکردۓ ۔
یھودی کہتا ہے کہ : کچھ ہی عرصے میں میرے نسخے یھودی عبادت خانوں میں اور ان کے بڑے بڑے علماء کے درمیان چل نکلے ۔
پھر اس نے انجیل کا نسخہ لیا اوراس میں بھی اسی طرح کمی وزيادتی کی اورعیسائ کاتب سے نسخے تیارکرنے کو کہا ، اور کاتب نے وہ نسخے تیارکردۓ ، یھودی کا کہنا ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ نسخے ان گرجوں میں پڑھے جانے لگے اورعیسائ علماء کے ہاتھوں میں متداول ہوگۓ ۔
پھراس نے قرآن مجیدلیا اور اس میں بھی تورات وانجیل کی طرح کمی و زیادتی کرنے کے بعد مسلمان کاتب کودیا کہ اس کے نسخے تیارکرے ، اورجب وہ ان نسخوں کولینے کے لۓ گیا تو اس کاتب نے وہ نسخہ اس کے منہ پر دے مارا اور اسے بتایا کہ یہ مسلمانوں کا قرآن نہیں ہے !
تو اس یھودی کواس تجربہ سے اس بات کا علم ہوا کہ قران مجید اللہ تعالی کی حق اور سچی کتاب ہے اور اس کے علاوہ باقی سب کچھ ایسا ہے جو انسان وبشر کی ملاوٹ خالی نہیں ہے ۔
اوراگر مسلمانوں کا ایک عام کاتب اس نسخہ کی تحریف کو جان لیتا ہے توکیا یہ ممکن ہے کہ یہ مسلمان علماء کرام میں چل سکے ؟
اوراگر سوال کرنے والی اس تجربہ کووقت حاضرمیں دھرانا چاہتی ہے تو اسے بھی اس یھودی جوکہ اس کےتجربہ کےبعدمسلمان ہوگیا تھا کی طرح ان تینوں کتب میں کچھ کمی وزیادتی ہی کرکے اس تجربے کا نتیجہ دیکھنا ہوگا ۔
اورپھر آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ قرآن مجیدکا یہ نسخہ کسی مسلمان کاتب کے پاس لے جائیں ، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ آپ اسے مسلمانوں کے بچوں کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ آپ کواس کی غلطیاں نکال کر دیں !
اور بعض اسلامی ممالک میں کچھ ایسے مصاحف طبع کۓ گۓ جن میں اخطاء تھیں اور ان کو نکالنے والے بڑوں سے قبل بچے ہی تھے ۔
اور اللہ تعالی ہی ھدایت دینے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .