کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گائوں میں ایک مسجد ہے اور اسی گاؤں میں دو مذہب اہل حدیث و حنفی اور دو امام اب انہیں میں ہمیشہ مذہبی تنازع رہتا ہے یہاں تک کہ خونزریزی کی نوبت پہنچتی ہے۔ اب اہل حدیث چاہتی ہے کہ علیحدہ مسجد بنا لیں کیا ان کے لیے شرع محمدی سے جائز ہے کہ وہ علیحدہ مسجد بنا لیں۔
صورت مذکورہ میں اگر فتنہ و فساد کی صورت ہے نماز پڑھنے کو روکتے ہیں یا امور سنت کے ادا کرنے میں مانع ہوتے ہیں ایسی صورت میں دوسری مسجد کے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ مسجد جدید بنانا درست ہے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من بنی اللّٰہ مسجداً بنی اللّٰہُ لۃٗ بیتًا فی الجنة (رواہ ابو داؤد)
نماز با جماعت اور جمعہ اس مسجد میں پڑھنا درست ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
(حررہ احمد اللہ غفر لہ از مدرسہ زبیدیہ محلہ نواب گنج مورخہ ۲۶ شوال ۱۳۵۶ھ)
جواب صحیح ہے بہ نیت صالح برائے دفع شر فاصلہ پر مسجد بنانی جائز ہے۔
(ابو سعید شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ عربیہ دہلی ۳ ذیقعد ۱۳۵۶ھ)
دونوں حق پر ہیں جہاں تک ہو اہل حدیث اس مسجد میں نماز پڑھیں پڑھائیں۔ قانوناً بھی ان کا حق ہے۔ اسلاماً بھی حق ہے۔ تاہم اگر اپنی مسجد بنائیں تو بنا سکتے ہیں اور وہاں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں اور پڑھا سکتے ہیں۔
(محمد یونس غفر لہ مدرس اول مدرسہ حضرت میاں صاحب پھاٹک حبش خان دہلی ۱۲ ذیقعد ۱۳۵۶ھ)
جہاں تک ممکن ہو اصلاح کی کوشش کی جائے اور ایک ہی مسجد میں نماز ادا کی جائے اپنا قبضہ مسجد میں ضرور رکھا جائے ہاں اگر بالفرض محال کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو پھر مجبوری ہے مگر جدید مسجد اسی جگہ پر بنانا چاہیے جہاں آبادی قریب ہو اور گاؤں کے اکثر لوگ نماز میں پنچ وقت حاضر ہو سکیں۔ مسجد کو آباد کرنے کا خیال ہو نیت صرف احکام الٰہی جاری کرنے کا خیال ہو تو اس صورت میں مسجد بنا سکتے ہیں۔ واللہ اعلم