سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سپارے كا كچھ حصہ نماز تراويح سے قبل اور باقى نماز تراويح ميں مكمل كرنا

  • 26731
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-30
  • مشاہدات : 19

سوال

ہمارے ہاں يہاں امريكہ ميں افطارى كے بعد سوا سات بجے سے ليكر ساڑھے سات بجے تك قرآن مجيد كى كلاس لگتى ہے، پھر اس كے بعد عشاء كى نماز اور بعد ميں نماز تراويح ادا كى جاتى ہے، اور افطارى كے بعد قرآن مجيد كى كلاس ميں كوئى ايك شخص سپيكر ميں قرآن مجيد پڑھ كر سناتا ہے، پلاننگ اس طرح كى گئى ہے اس كلاس ميں سپارے كے بارہ صفحات پڑھ كر مردوں اور عورتوں كو سنائے جاتے ہيں، اور پھر باقى آٹھ صفحات نماز تراويح ميں پڑھ كر روزانہ ايك سپارہ مكمل كيا جاتا ہے، اور سارا قرآن مجيد اسى طرح مہينہ كے آخر ميں مكمل ہوتا ہے، سوال يہ ہے كہ: كيا اس طرح قرآن مجيد كى مجلس قائم كرنا سنت ہے يا بدعت ؟ اور كيا قرآن مجيد نماز تراويح ميں مقتديوں پر پڑھنا افضل ہے يا اكٹھے ہو كر مجلس ميں پڑھنا ؟

الحمد للہ.

اس طرح كى مجلس ميں تم پر كوئى حرج نہيں، آپ لوگوں ميں سے كسى ايك شخص كا قرآن مجيد كى تلاوت كرنا اور باقى حضرات كا خاموشى كے ساتھ سننا مشروع امر ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے صحابہ كرام نے اس پر عمل كيا ہے.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" مجھ پر قرآن مجيد كى تلاوت كرو "

ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے سامنے پڑھوں، حالانكہ آپ پر تو قرآن مجيد نازل ہوا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ميں چاہتا ہوں كہ اپنے علاوہ كسى اور شخص سے قرآن مجيد كى تلاوت سنوں "

تو ميں نے آپ كے سامنے سورۃ النساء پڑھى اور جب اس آيت پر پہنچا تو جب ہم ہر امت سے ايك گواہ لائينگے اور آپ كو ان لوگوں پر گواہ لائينگے تو كيا حال ہو گا النساء ( 41 ).

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: بس اب اتنا ہى كافى ہے، تو ميں آپ كى طرف متوجہ ہوا تو آپ كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4763 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 800 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس عظيم الشان ماہ مبارك ميں مسلمانوں كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا كرتے ہوئے قرآن مجيد پڑھنا اور ايك دوسرے كو دن رات سنانا مشروع ہے، كيونكہ ہر سال رمضان المبارك ميں جبريل عليہ السلام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قرآن مجيد كا دور كرتے تھے اور آخرى سال انہوں نے رمضان ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قرآن مجيد كا دو بار دور كيا، اور پھر اللہ تعالى كا قرب اور كتاب اللہ پر غور و فكر اور تدبر كرنے اور اس سے مستفيد ہونے اور اس پر عمل كرنے كے ليے بھى قرآن مجيد كا دور كرنا چاہيے، اور سلف رحمہ اللہ كا عمل بھى يہى رہا ہے اس ليے اہل ايمان چاہے مرد ہو يا عورت وہ قرآن مجيد كى تلاوت ميں مشغول ہوں، اور اس پر غور و فكر اور تدبر كريں، اور اسے سمجھيں، اور اس سے مستفيد ہونے كے ليے تفسير اور علمى كتب كا مطالعہ كريں "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 319 - 320 ).

اور افضل و بہتر يہ ہے كہ قرآن مجيد كى تلاوت كے ساتھ قرآن مجيد كے احكام كى تعليم بھى ہو، اور اس كے معانى و ترجمہ بھى سيكھے جائيں اور تلاوت كى گئى آيات كے ساتھ جب آپ اس كى تفسير كا اضافہ كر ليں يا كچھ آيات كى تفسير بھى شامل كريں تو آپ كئى ايك خير و بھلائى كو جمع كر ليں گے، جس سنت پر عمل، اور قرآن مجيد كا ايك دوسرے كو پڑھانا و سنانا، اور مسلمانوں كو اس كى تعليم دينى، اور قرآن مجيد پر غور و فكر اور تدبر كرنے ميں معاونت كرنا ....

اور اگر پورا قرآن مجيد نماز تراويح ميں ختم كيا جائے تو يہ ويسے ختم كرنے سے افضل و بہتر ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:

" قرآت اور اس كى ترغيب كا معاملہ سے نمازى كو وہ كچھ حاصل ہوتا ہے جو غير نمازى كو حاصل نہيں ہوتا، كيونكہ نماز ميں قرآن مجيد كى قرآت كرنا نماز سے باہر قرآت كرنے سے افضل ہے، اور قرآن مجيد كى قرآت كرنے والے قارى كى جو فضيلت احاديث ميں وارد ہوئى ہے، وہ نمازى كو غير نمازى سے زيادہ حاصل ہوتى ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 297 ).

اور اگر لوگوں كے ليے نماز ميں پورا قرآن مجيد ختم كرنا مشقت كا باعث ہو تو آپ دونوں حديثوں كو جمع كر سكتے ہيں: نماز سے قبل ايك دوسرے كو قرآن مجيد سنانا، اور باقى نماز ميں پڑھنا جيسا كہ آپ كر رہے ہيں.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سے سب سے زيادہ خيرات كرنے والے تھے، اور سب سے زيادہ سخى آپ رمضان المبارك ميں اس وقت ہوتے جب آپ سے جبريل امين ملتے، اور جبريل آپ كو رمضان كى ہر رات ملتے اور قرآن مجيد كا دور كرتے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خيرات ميں تيز ہوا سے بھى زيادہ سخى تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3048 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا جبريل امين عليہ السلام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قرآن مجيد كے دور سے يہ اخذ كيا جا سكتا ہے كہ رمضان المبارك ميں قرآن مجيد ختم كرنا افضل ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس حديث سے يہ حاصل ہوتا ہے كہ باہم قرآن مجيد پڑھنا مستحب ہے، اور مومن كے ليے مستحب ہے كہ وہ اس شخص كے ساتھ قرآن مجيد كا دور كرے جو اسے فائدہ و نفع دے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جبريل امين عليہ السلام كے ساتھ قرآن كا دور فائدہ حاصل كرنے كے ليے كيا كرتے تھے؛ اس ليے كہ جبريل امين ہى قرآن مجيد كو اللہ تعالى كے پاس سے لايا كرتے تھے، اور وہ اللہ تعالى اور رسولوں كے مابين سفير تھے.

تو جبريل امين اللہ تعالى كى جانب سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور اشياء كا فائدہ ديتے تھے، قرآن مجيد كے حروف كے اعتبار سے اور جو معانى اللہ تعالى نے مراد ليے ہيں اس كے اعتبار سے بھى، تو جب انسان كسى ايسے شخص كے ساتھ قرآن مجيد كو باہم پڑھے جو اسے قرآن مجيد سمجھنے ميں معاون ہو، اور جو اس كے الفاظ كو درست كروائے تو يہ امر مطلوب ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جبريل امين عليہ السلام كے ساتھ قرآن مجيد كو باہم پڑھا، اس سے مقصود نہيں كہ جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افضل ہے، ليكن جبريل امين تو وہ پيغام لانے والے تھے جو اللہ تعالى كى جانب سے تھا، اورجو پيغام قرآن اور اس كے الفاظ، اور اس كے معانى كے اعتبار سے ديا ہوتا وہ لا كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو پہنچا ديتے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جبريل امين عليہ السلام سے اس حيثيت سے مستفيد ہوتے، نہ كہ جبريل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افضل تھے، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو سب انسانوں اور سب فرشتوں سے افضل ہيں، ليكن باہم قرآن مجيد پڑھنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور امت كے ليے بہت خير ہے؛ كيونكہ يہ اس شخصيت كے ساتھ باہم قرآن پڑھنا تھا جو اسے اللہ تعالى كے پاس سے لاتى رہى ہے، اور اس ليے بھى كہ جو اللہ تعالى سے لاتا ہے اس سے مستفيد ہوں.

اور اس ميں ايك اور بھى فائد يہ ہے كہ: رات ميں باہم قرآن مجيد پڑھنا دن ميں پڑھنے سے افضل ہے، اور يہ معلوم ہے كہ رات كے وقت قرآن مجيد كا باہم پڑھنا دل و دماغ كو حاضر كرنے كے زيادہ قريب ہے، جو كہ دن كو كم ہوتا ہے، اور دن كے مقابلہ ميں رات كو مستفيد بھى زيادہ ہوا جاتا ہے.

اور اس ميں اور بھى كئى ايك فوائد ہيں:

باہم قرآن مجيد پڑھنے كى مشروعيت، اور يہ كہ يہ اعمال صالحہ ميں شامل ہوتا ہے، چاہے رمضان كے علاوہ كسى اور مہينہ بھى ہو، كيونكہ اس ميں ہر ايك كو فائدہ ہے، چاہے دو سے زائد افراد ہوں تو بھى كوئى حرج نہيں ان ميں سے ہر ايك اپنے بھائى سےمستفيد ہوتا ہے، اور اسے قرآت قرآن پر ابھارتا اور اس ميں چستى پيدا كرتا ہے، ہو سكتا ہے جب وہ اكيلا پڑھے تو چست نہ رہے بلكہ سستى و كاہلى كا شكار ہو، ليكن جب وہ اپنے ساتھى كے ساتھ مل كر قرآن مجيد كو باہم مل كر پڑھے تو يہ اس كے ليے زيادہ نشاط و چستى كا باعث ہونے كے ساتھ ساتھ عظيم فائدہ كا باعث بھى ہو گا، اور جو لفظ مشكل اور سمجھ نہ آئے اس ميں وہ غور خوض اور مطالعہ و مذاكرہ كرينگے، تو يہ سب كچھ خير عظيم ہے.

اس سے يہ بھى سمجھنا ممكن ہے كہ رمضان المبارك ميں امام كى جانب سے جماعت ميں پورا قرآن پڑھنا يہ بھى باہم قرآن مجيد پڑھنے كى ايك قسم ہے، كيونكہ اس ميں ان كے ليے سارے قرآن كا فائدہ ہے، اسى ليے امام احمد رحمہ اللہ اس امام كو پسند كرتے جو انہيں پورا قرآن مجيد سنا كر ختم كرے، اور يہ بھى سلف كا مكمل قرآن مجيد سننے جيسے عمل جيسا ہى عمل ہے، ليكن يہ واجب نہيں، كيونكہ وہ قرآت ميں تيزى اور جلدى كريگا، اور اس پر غور نہيں كريگا، اور نہ ہى خشوع و خضوع اور اطمنان تلاش كريگا، بلكہ اس كے سامنے مقصد قرآن مجيد كو ختم كرنا ہوگا "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 331 - 333 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

بہت سے امام تراويح اور تھجد ميں قرآن مجيد ختم كرنے، اور مقتديوں كو سارا قرآن سنانے كى كوشش كرتے ہيں، تو كيا اس ميں كوئى حرج تو نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ عمل اچھا اور بہتر ہے كہ امام ہر رات ايك سپارہ يا اس سے كم پڑھے، ليكن آخرى عشرہ ميں وہ زيادہ قرآت كر لے تا كہ پورا اور كامل قرآن مجيد ختم ہو سكے، يہ تو اس حالت ميں ہے جب ايسا كرنے ميں كوئى مشقت نہ ہو...

علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " جلاء الافھام فى الصلاۃ و السلام على خير الانام " ميں باب باندھا ہے، جس ميں انہوں نے سلف كا حال بيان كيا ہے كہ وہ قرآن مجيد كو ختم كرنے كا خيال ركھتے تھے، اس ليے مزيد فائدہ كے حصول كے ليے اس باب كا مطالعہ كرنے كى نصيحت كرتے ہيں "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 333 - 334 ).

واللہ اعلم .

تبصرے