الحمد للہ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری سورت بقرہ کی فضیلت کے متعلق بھی بتلایا ہے، اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اس کی بعض آیات مثلاً: آیت الکرسی اور سورت بقرہ کی آخری دو آیات کی فضیلت بھی بتلائی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سورت کی فضیلت میں یہ بھی بتلایا ہے کہ شیاطین اس گھر سے بھاگ جاتے ہیں جہاں یہ سورت پڑھی جاتی ہے، اور یہ کہ سورۃ البقرہ کی تلاوت جادو سے بچاؤ اور علاج دونوں کے لئے مفید ہے۔
جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، بیشک شیاطین اس گھر سے بھاگ جاتے ہیں جہاں سورت البقرہ پڑھی جائے) مسلم: (780)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمہور محدثین نے اس حدیث کے عربی لفظ: يَنْفِرُ کو اسی طرح پڑھا ہے اور اس کا ضبط ذکر کیا ہے، جبکہ مسلم کے بعض راویوں نے اسے يَفِرُّ بھی روایت کیا ہے، اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ " " شرح مسلم " ( 6 / 69 )
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو؛ کیونکہ سورت بقرہ کو یاد کرنا برکت ہے، اور اسے چھوڑ دینا حسرت ہے، جادو گر اس پر غالب نہیں آ سکتے) مسلم: (804)
سورت البقرہ کی تلاوت کے لئے بلند آواز سے پڑھنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ گھر میں پڑھنا ہی کافی ہے چاہے بالکل دھیمی آواز ہو، اسی طرح یہ بھی شرط نہیں ہے کہ ساری سورت ایک ہی بار پڑھی جائے، تو ایسا ممکن ہے کہ مختلف مجالس میں پڑھ کر اسے مکمل کر لیا جائے، اسی طرح یہ بھی کوئی شرط نہیں ہے کہ ایک ہی شخص اس سورت کو مکمل پڑھے، چنانچہ اگر پوری سورت کو تقسیم کر دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اگرچہ ان تمام تر صورتوں میں سے افضل یہی ہے کہ ایک ہی شخص پوری سورت ایک بار بیٹھ کر پڑھ لے۔
ریڈیو یا آڈیو کیسٹ سے آنے والی آواز کو قراءت شمار کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ گھر میں سے کوئی بذات خود سورت بقرہ کی تلاوت کرے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا کہ:
ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی انسان سورت بقرہ پڑھے تو اس کے گھر میں شیاطین داخل نہیں ہوتے، لیکن اگر سورت بقرہ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے چلائی جائے تو کیا پھر بھی یہی فضیلت حاصل ہو گی؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
نہیں، نہیں۔ ٹیپ کی آواز کوئی فائدہ نہیں دے گی؛ کیونکہ ٹیپ کی آواز سن کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس گھر کے فرد نے قرآن پڑھا ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے کسی قاری کی ریکارڈ شدہ آواز سنی ہے، اس لیے اگر ہم کسی مؤذن کی اذان کو ریکارڈ کر لیں اور جب اذان کا وقت آئے تو ٹیپ ریکارڈر مائیکروفون کے آگے کر دیں اور ریکارڈ شدہ اذان سے اذان دی جائے تو کیا اس طرح اذان ہو جائے گی؟ نہیں ہوگی، اسی طرح ہم کوئی بہت ہی شاندار قسم کا خطبہ ریکارڈ کر لیں اور جب جمعے کا وقت آئے تو یہی ٹیپ اس وقت چلا دیں اور مائیکروفون میں ٹیپ کی آواز آئے: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" پھر اذان چلنے لگے اور پھر خطبہ شروع ہو جائے تو کیا اس سے جمعہ اور اذان ہو جائے گی؟ نہیں ہو گی، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ماضی میں ریکارڈ شدہ آواز ہے، بالکل اسی طرح جیسے آپ قرآن کریم کا کچھ حصہ ایک کاغذ پر لکھ کر گھر میں رکھ لیں یا پورا قرآن ہی گھر میں رکھ لیں تو کیا یہ قراءت کا متبادل بن سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔
أسئلة الباب المفتوح " (سوال نمبر: 986 )
لیکن اگر گھر میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو سورت بقرہ پڑھ سکے، اور نہ ہی ان کے گھر سورت بقرہ پڑھنے والا کوئی باہر کا شخص موجود ہو تو ایسی صورت میں وہ ٹیپ ریکارڈر کو استعمال کریں تو زیادہ امید یہی نظر آتی ہے کہ ان شاء اللہ گھر سے شیطان کے فرار ہونے کی یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی؛ خصوصاً اگر اہل خانہ میں سے کوئی ٹیپ ریکارڈر سے سورت بقرہ سنے تو اس فضیلت کے حصول کی زیادہ امید ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے جسے امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے کہ: (اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ؛ کیونکہ شیطان ایسے گھر سے فرار ہو جاتا ہے جہاں سورت بقرہ پڑھی جائے) تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہو گا کہ انسان ٹیپ ریکارڈر لے اور اس میں مکمل سورت بقرہ کی ریکارڈنگ والی کیسٹ لگائے اور مکمل سورت اس پر چلا دے؟ یا یہ کہ انسان خود سورت بقرہ پڑھے یا اس کی طرف سے کوئی آدمی ہی لازمی طور پر سورت بقرہ خود سے پڑھے، ٹیپ چلانے سے کچھ نہیں ہو گا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"لگتا یہی ہے کہ -اللہ اعلم- ریڈیو یا گھر کے کسی فرد کی جانب سے پڑھی گئی سورت بقرہ سے یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی کہ اس گھر سے شیطان فرار ہو جائے گا، تاہم سورت بقرہ کی تلاوت ختم کرنے کے بعد شیطان کے بھاگنے سے یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کبھی واپس نہ آئے، تو یہاں شیطان کا معاملہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے وہ اذان اور اقامت کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے اور پھر دوبارہ واپس آ کر انسان کے دل میں وسوسے ڈالتے ہوئے کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں چیز یاد کر۔۔ نماز میں وسوسے ڈالنے کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے، اس لیے مومن کے لئے شرعی عمل یہ ہے کہ انسان شیطان سے اللہ کی پناہ تسلسل کے ساتھ مانگتا رہے، شیطانی چالوں اور وسوسوں سے خبردار رہے، اور جن گناہوں کی جانب شیطان دعوت دیتا ہے ان سے بچے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق سے نوازے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (24/413)
واللہ اعلم