الحمد للہ.
"صحیح احادیث میں قرآن کریم کو گنگنا کر پڑھنے کی ترغیب موجود ہے، گنگنا کر پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز خوب صورت بنائی جائے، اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ گانوں کی طرح پڑھا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تلاوت کرتے ہوئے آواز اچھی اور خوبصورت بنائی جائے۔ انہی صحیح احادیث میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے کہ: (اللہ تعالی کسی بھی چیز کو اتنا کان لگا کر نہیں سنتا جتنا خوبصورت آواز والے نبی کی با آواز بلند قرآن کی تلاوت سنتا ہے) اسی طرح ایک اور حدیث یہ بھی ہے کہ: (وہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو بلند آواز سے گنگنا کر نہ پڑھے) یہاں پر بھی سابقہ حدیث کی طرح آواز کو خوبصورت بنانا مقصود ہے۔
مذکورہ حدیث کے عربی الفاظ مَا أَذِنَ اللهُ جس کے معنی کان لگا کر سننے کے ہیں ، اس کی کیفیت وہی ہو گی جو ذات باری تعالی کے لائق ہے کہ ذات باری تعالی کی سماعت مخلوق کے مشابہ نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہم دیگر صفات کے بارے میں کہتے ہیں، اس لیے اللہ تعالی کی سماعت اور کان کی صفت کے بارے میں یہی کہیں گے کہ جیسے اس کی شان کے لائق ہو، کیونکہ کوئی چیز بھی اللہ تعالی کے مشابہ نہیں ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ
ترجمہ: اس کی مثل کچھ نہیں ہے، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔[الشوری: 11]
قرآن کریم کو گنگنا کر پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز خوبصورت بنائیں اور خشوع کے ساتھ پڑھیں کہ سنتے ہی دل حرکت میں آ جائے؛ کیونکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے ذریعے دل کو بیدار کریں اور دل میں خشوع کے ساتھ اطمینان پیدا ہو ، نیز دل کو قرآن سے فائدہ ہو۔
اسی ضمن میں
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس سے گزرے تو ابو موسی اشعری تلاوت کر رہے تھے، تلاوت سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم رک گئے، اور فرمایا: (ابو موسی تمہیں آل داود جیسی خوبصورت آواز دی گئی ہے۔) جب ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بتلایا، اس پر ابو موسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کے رسول اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ میری تلاوت سن رہے ہیں تو میں آپ کو مزید خوبصورت آواز کے ساتھ تلاوت سناتا۔
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو اس عزم سے نہیں روکا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ آواز کو خوبصورت بنانا اور تلاوت خوب اہتمام سے کرنا ضروری ہے تا کہ قاری اور سامع دونوں کو خشوع ملے اور دونوں کو فائدہ بھی ہو۔" ختم شد
"مجموع فتاوى الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله" (11/348- 350)