الحمد للہ.
قرآن کریم کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، چنانچہ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں تمام اہل علم نے اپنے اجتہاد کے مطابق رائے قائم کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر حتمی رائے قائم کی جا سکے۔
تاہم اکثر اہل علم کی یہ رائے ہے کہ سب سے آخر میں سورۃ البقرۃ کی آیت:
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جب تمہیں اس میں اللہ کی طرف واپس لوٹایا جائے گا، پھر ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔[البقرۃ: 281]
حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آخر میں نازل ہونے والی آیت کا بیان، اس بارے میں اختلاف ہے:
بخاری و مسلم نے بیان کیا ہے کہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں آیت يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ نازل ہوئی اور سورتوں میں سب سے آخری سورت توبہ نازل ہوئی۔
صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں آیتِ سود یعنی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا نازل ہوئی ہے۔ یہی موقف بیہقی نے عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بیان کیا ہے۔
سنن نسائی میں عکرمہ عن ابن عباس مروی ہے کہ: قرآن کریم میں سب سے آخری آیت وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ نازل ہوئی۔
ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ: پورے قرآن کریم میں سے سب سے آخری آیت وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ نازل ہوئی ہے، پھر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 90 راتیں زندہ رہے، اور پھر سوموار کی رات 2 ربیع الاول کو فوت ہوئے۔
ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی ابن جریج سے یہی موقف نقل کیا ہے۔
اور پھر عطیہ عن ابی سعید کی سند سے بھی بیان کیا ہے کہ سب سے آخر میں آیت وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ نازل ہوئی ہے۔
جبکہ ابو عبید رحمہ اللہ نے کتاب "الفضائل" میں ابن شہاب رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ عرش سے سب سے آخر میں آیت سود اور آیت دَین نازل ہوئی ہیں۔
مستدرک حاکم میں ہے کہ: ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں آیت: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ سے لے کر سورت کے آخر تک نازل ہوئی۔
اسی طرح ابن مردویہ نے بھی ابی بن کعب سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کے پاس سے سب سے آخر میں نازل ہونے والے قرآن میں دو آیات ہیں: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ۔۔۔
ابو الشیخ نے اپنی تفسیر میں علی بن زید عن یوسف المکی عن ابن عباس کی سند سے بیان کیا ہے کہ : سب سے آخر میں { لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ } آیت نازل ہوئی" ختم شد
"الإتقان في علوم القرآن" (1/ 101-103)
مزید کے لیے دیکھیں: تفسیر ابن کثیر: (2/ 168)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت کے متعلق صحیح ترین قول یہ ہے کہ: { وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ } "فتح الباری" (8/ 317)
ابو بکر باقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن کریم کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت کے متعلق صحابہ کرام سے ہی اختلاف پایا جا رہا ہے۔" اس کے بعد انہوں نے اختلاف ذکر کیا اور پھر کہا: "ان تمام روایات میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جو مرفوع ہو، تو یہ سارے اقوال ہی ہیں اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کہنے والے نے اجتہاد کی بنیاد پر کہا ہو، اور اس کی بنیاد ظاہری حالات و واقعات اور غلبہ ظن پر ہو۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سب سے آخری آیت کے متعلق جاننا کوئی دینی فریضہ بھی نہیں ہے، اور نہ ہی اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی چیز منصوص ہے کہ آپ نے خود اس چیز کو واضح کیا ہو، اور اس کے متعلق کوئی تاکید کی ہو ۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہر قول کے قائل نے سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہوئی آیت کو سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت قرار دے دیا ہو ۔ پھر کسی اور نے اس کے بعد نازل ہونے والی آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا لیکن وہ نہیں سن سکا؛ کیونکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے جا چکا تھا، اور قرآن اس کے جانے کے بعد بھی نازل ہوتا رہا۔" اس کے بعد انہوں نے اس اختلاف کے متعلق مزید توجیہات بھی ذکر کی ہیں۔
دیکھیں: "الانتصار للقرآن" (1/ 243-247)
واللہ اعلم