جواب کا خلاصہ
اگر کوئی شخص چھینک، سلام یا سوال کے جواب جیسے کسی عذر کی بنا پر تلاوت سے رکے اور اس کی نیت یہی ہو کہ وہ اس عارضی عذر کے بعد تلاوت جاری رکھے گا تو پھر ایسی صورت میں اس کے لیے پہلی بار تعوذ پڑھنا کافی ہے، اسے دوبارہ تعوذ پڑھنے کا نہیں کہا جائے گا، ہاں اگر درمیان میں وقفہ لمبا ہو جائے تو پھر تعوذ پڑھے گا۔
جواب کا متن
الحمد للہ.
اگر کوئی شخص چھینک، سلام یا سوال کے جواب جیسے کسی عذر کی بنا پر تلاوت سے رکے اور اس کی نیت یہی ہو کہ وہ اس عارضی عذر کے بعد تلاوت جاری رکھے گا تو پھر ایسی صورت میں اس کے لیے پہلی بار تعوذ پڑھنا کافی ہے، اسے دوبارہ تعوذ پڑھنے کا نہیں کہا جائے گا، ہاں اگر درمیان میں وقفہ لمبا ہو جائے تو پھر تعوذ پڑھے گا۔
ابن مفلح "الآداب الشرعية" (2/326) میں کہتے ہیں:
"تلاوت میں تعوذ پڑھنا مسنون ہے۔
اگر درمیان میں وقفہ اس نیت سے کرے کہ اس نے دوبارہ تلاوت نہیں کرنی تو اس صورت میں اگر تلاوت دوبارہ کرے تو تعوذ پڑھے گا۔
اور اگر کسی عذر کی بنا پر درمیان میں وقفہ کرے اور ارادہ یہی ہو کہ عذر ختم ہونے کے بعد تلاوت جاری رکھے گا تو اس کے لیے پہلے پڑھا ہوا تعوذ کافی ہے۔" ختم شد
اسی طرح علامہ رحیبانی "مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى" (1/599) کہتے ہیں:
"اگر تلاوت کرنے والا اپنی تلاوت میں وقفہ اس ارادے سے کرے کہ دوبارہ تلاوت نہیں کرنی، اور پھر وہ دوبارہ تلاوت کرنے لگے تو اب تعوذ پڑھے گا۔ اور اگر وقفہ کسی عذر کی وجہ سے تھا اور ارادہ یہ تھا کہ عذر ختم ہوتے ہی تلاوت مکمل کرے گا ، مثلاً؛ کوئی چیز لینی ہے، یا کسی کو کوئی چیز اٹھا کر دینی ہے، یا کسی سوال کا جواب دینا ہے، یا چھینک آ گئی ہے یا اسی طرح کا کوئی عارضی عذر ہے تو پھر تعوذ دوبارہ نہ پڑھے؛ کیونکہ یہ ایک ہی تلاوت ہے۔" ختم شد
مذکورہ صورت تب ہے جب وقفہ زیادہ لمبا نہ ہو، لیکن اگر وقفہ لمبا ہو جائے تو اس کے لیے تعوذ دوبارہ پڑھنا مسنون ہے:
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تلاوت سے قبل تعوذ پڑھنا مستحب ہے، اگر تلاوت میں وقفہ تلاوت ختم کرنے کی نیت سے ہو اور پھر دوبارہ تلاوت کرنا چاہے تو تعوذ دوبارہ پڑھے۔
اور اگر کسی عذر کی وجہ سے تلاوت روکی تھی اور ارادہ یہی تھا کہ تلاوت مکمل کرنی ہے تو پھر اس کے لیے پہلا تعوذ ہی کافی ہے بشرطیکہ درمیانی وقفہ لمبا نہ ہو۔" ختم شد
البرهان في علوم القرآن (1/460)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر تلاوت کو لمبے وقفے یا لمبی گفتگو کے ذریعے منقطع نہ کرے تو ایک بار ہی تعوذ پڑھنا کافی ہے، لیکن اگر دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی لمبی ہو جائے تو تعوذ دوبارہ پڑھے گا۔
اگر سجدہ تلاوت کے بعد دوبارہ پھر تلاوت کرنے لگے تو اب بھی تعوذ دوبارہ نہ پڑھے کیونکہ یہ کوئی لمبا وقفہ نہیں ہے، یہ معمولی وقفہ ہے۔ یہ بات متولی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔" ختم شد
اگر درمیان میں وقفہ تلاوت سے متعلقہ ہی ہو، مثلاً: جن آیات کی تلاوت کر رہا ہے انہی کی تفسیر پڑھے، یا دعا مانگے یا اسی طرح کا کوئی اور کام ہو تو تب بھی تعوذ نہیں دہرائے گا۔
جیسے کہ ابن جزری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "النشر"(1/259) میں ذکر کیا کہ:
"اگر تلاوت کرنے والا شخص اپنی تلاوت کسی ایسے عارضے کی وجہ سے روکے جو تلاوت قرآن سے ہی تعلق رکھتا ہو مثلاً: دعا کرے، یا تفسیر بیان کرے تو پھر بھی تعوذ نہ پڑھے۔" ختم شد
لیکن اگر تلاوت کے دوران غیر متعلقہ کلام کرنے کے بعد دوبارہ سے تلاوت شروع کرنے سے پہلے تعوذ پڑھ لے تو یہ اچھا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ "التبيان" (ص 124) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص پیدل چلتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا، کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس کے لیے مستحب ہے کہ تلاوت موقوف کر کے لوگوں کو سلام کہے، اور پھر تلاوت مکمل کر لے ، اس کے لیے تعوذ دہرا لے تو یہ اچھا ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم