سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

انفرادى نماز ادا كرنے والے پر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنے كى فضيلت ميں احاديث كے مابين جمع

  • 26684
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-18
  • مشاہدات : 19

سوال

صحيح بخارى ميں دو حديثيں ہيں جن كا فتح البارى كے مطابق نمبر ( 645 - 646 ) ہے، پہلى حديث ميں ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : " نماز باجماعت ادا كرنا اكيلے نماز كرنے سے ستائيس درجہ افضل ہے " اور دوسر حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " باجماعت نماز ادا كرنا اكيلے نماز ادا كرنے سے پچيس درجہ افضل ہے" برائے مہربانى اس كى شرح اور وضاحت كريں ؟

الحمد للہ.

پہلى حديث عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے جو بخارى اور مسلم ميں ان الفاظ كے ساتھ ہے:

" نماز باجماعت انفرادى نماز سے ستائيس درجہ افضل ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 619 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 650 ).

اور دوسرى حديث ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بخارى ميں مروى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:

" نماز باجماعت انفرادى نماز سے پچيس درجہ افضل ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 619 ).

علماء كرام نے ان احاديث كے مابين جمع كرتے ہيں كہا ہے:

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

دن دونوں كے مابين تين وجوہات كے ساتھ جمع ہے:

پہلى: اس ميں كوئى منافات نہيں، كيونكہ قليل كا ذكر كرنا كثير كى نفى نہيں كرتا، اور اصوليوں كے ہاں عدد كا مفہوم باطل ہے.

دوسرى وجہ:

ہو سكتا ہے پہلے قليل كى خبر دى اور پھر اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو زيادہ فضيلت كا بتايا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا بيان كر ديا.

تيسرى وجہ:

نمازيوں كى حالت مختلف ہونے كى بنا پر يہ بھى مختلف ہو گى، بعض كے ليے پچيس درجہ اور بعض كے ليے ستائيس درجہ افضل ہو جو كہ نماز كى تكميل اور اس كى محافظت اور نماز كى ہيئت اور اس ميں خشوع و خضوع اور نمازيوں كى كثرت اور جگہ كے شرف وغيرہ كے اعتبار سے ہو.

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 84 ).

اس كے علاوہ بھى ان ميں جمع كى كئى ايك وجوہات ہيں، اور بعض مندرجہ بالا وجوہات ميں سے ہى نكلى اور متفرع ہيں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں امام نووى رحمہ اللہ كى بيان كردہ وجوہات كے علاوہ دوسرى وجہ راجح كہى ہے وہ يہ كہ:

" ستائيس درجہ جھرى نماز ميں ہے، اور پچيس درجہ سرى نماز ميں ہے "

ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 132 ).

واللہ اعلم .

تبصرے