اس سوال کی عبارت نہیں ملی، اس وجہ سے صرف جواب لکھا گیا ہے، لیکن اس کی شق دوم مع جواب کے آگے آ رہی ہے۔
معلوم کرنا چاہیے، کہ مستغتی نے جتنی حدیثیں تقبیل عینین کے بارے میں لکھی ہیں، ساری محض بے اصل اور موضوعات ہیں، شیخ جلال الدین سیوطی نے تیسیر المقال میں لکھا ہے۔
الاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل وجعلھا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المؤذن فی کلمة الشہادة کلہا موضوعات انتہی وقال الملاء علی القاری فی رسالة الموضوعات لا اصل لہا
’’وہ تمام احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مؤذن سے سن کر کلمہ شہادتین میں سننے پر انگلیوں کے چومنے اور پھر آنکھوں پر لگانے کے بارے میں آئی ہیں، وہ سب موضوع ہیں، ملا علی قاری نے بھی رسالہ موضوعات میں لکھا ہے، کہ ان کا کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘
اور محمد طاہر صاحب مجمع البحار اور علامہ شوکانی نے لکھا ہے ، کہ تقبیل عینین کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں اسی واسطے مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنے فتوے تقبیل العینین میں فرمایا ہے، کہ تقبیل عینین اگر سنت جان کر کرے، تو بدعت ہے، کیونکہ حدیث صحیح اس باب میں ائمہ اربعہ و محدثین کبار سے نہیں پائی گئی، اور مولانا حسن علی محدث لکھنوی نے بھی اسی طرح اپنے فتوے تقبیل العینین میں لکھا ہے کہ ان حدیثوں کا کچھ اصل نہیں اس لیے کہ ائمہ اربعہ و محدثین و متقدمین کبار سے اس کی کچھ اصل ثابت نہیں، اور جو حدیث تقبیل عینین کی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مقاصد حسنہ میں فردوس دیلمی سے نقل کی ہے، اس حدیث کے راوی مجہول ہیں، جن کا یہ حال معلوم نہیں، کہ وہ کیسے ہیں، اور جب تک کسی حدیث کے راوی کا حال معلوم نہ ہو، وہ حدیث پایہ اعتبار سے ساقط ہے نزدیک محدثین کے، جیسا کہ کتب اصول حدیث شرح نخبہ، اور جواہر الاصول اور تدریب الراوی وغیرہ میں مذکور ہے، اور کتاب فردوس دیلمی میں واہیات اور موضوعات تو وہ تو وہ مذکور ہیں، جیسا کہ مولانا شاہ عبد العزیز بستان المحدثین میں فرماتے ہیں:
مسلم و سنن سعید بن منصور و مصنف عبد الرزاق و مصنف ابو بکر بن ابی شیبہ وغیرہ میں راویان ثقات معتبرین سے نہ پائی جاوے قابل تمسک اور عمل کے نہیں جیسا کہ کتب اصول حدیث وغیرہ میں مذکور ہے، اور ظاہر ہے کہ حدیث تقبیل العینین کی کتب مذکورہ بالا میں منقول و مذکور نہیں اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جو حدیث میری سند میں نہ پائی جاوے، وہ حدیث قابل حجت کے نہیں، اور مدار حدیث کے اوپر نقل محدثین نقاد کی کتاب معتبر معمول بہ میں ہے کہ صدر اول سے لے کر آخر تک مشہور ہوئی ہو، اور حدیث تقبیل العینین کی صدر اول اور ثانی اور ثالث میں پانی نہیں گئی، اگر پائی جاتی تو محدثین کی کتب مرقومہ بالا میں مذکور ہوتی اور مسند روبانی میں بھی اکثر واہیات مذکور ہیں جیسے کہ موضوعات کبیر و تذکرہ نور الدین سے واضح ہوتا ہے و جناب مولانا شاہ عبد العزیز قدس سرہ در رسالہ عجالہ نافی می فرمانید کہ:
(۱؎) مسند فردوس دیلمی میں بے شمار موضوع اور واہیات روایات پائی جاتی ہیں۔
(۲؎) مسند مسلم لابن ابی بکر محمد بن عبد اللّٰہ الجوزقی المتوفی ۳۸۸ھ وھو المسند الصحیح علی کتاب مسلم ختصرہ یعقوب بن اسحاق و ابو عوانۃ الحافظ کذا فی کشف الظنون، کتبہ ابو الطیب عفی عنہ
مراد (۱؎) از قبول حدیث آن است، کہ نقاد حدیث آن کتاب را اثبات کنند و برآن اعتراض نہ کنند، و حکم صاحب کتاب رادر بیان حال احادیث آن کتاب را تصویب و تقریر نمایند و فقہا، بآن حدیث تمسک نمایند بے اختلاف و بے انکار، وطبقہ چہارم احادیثے کہ نام و نشان آنہا در قرون سابقہ معلوم نہ بود، ومتاخران آن را روایت کردند، پس حال آنہا از دو شق خالی نیست یا سلف تفحص کردن و آنہار اصلی نہ یا فتند، تا مشغول بروایت آنہا می شد ند یا فتند ودر آن قدحے دعلتے دید ندکہ باعث ہمہ آنہارا بر ترک روایت آنہا شدو علی کل تقدیراین احادیث قال اعتماد نیستند، ودرین قسم احادیث کتب بسیار مصنف شدہ اند برخے را بشماریم کتاب الضعفاء لابن حبان وتصانیف حاکم و فردوس دیلمی وغیرہ اتنہیٰ ما فی بستان المحدثین
(۱؎) شاہ عبد العزیز ’’عجالہ نافعہ‘‘ میں فرماتے ہیں قبول حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے ، کہ نقادان حدیث اس کتاب کو معتبر سمجھیں، اور صاحب کتاب کی حدیث کے متعلق فیصلہ کو صحیح سمجھیں ، فقہا اس سے تمسک کریں، اور کوئی اختلاف و انکار نہ کریں چوتھے طبقہ کی وہ حدیثیں ہیں جن کا قرون اولیٰ میں نام و نشان نہ تھا اور پچھلے لوگوں نے ان کو روایت کیا، یہ دونوں حال سے خالی نہیں ہیں، یا تو سلف صالحین کو اس کا کو اصل نہ ملا، کہ ان کی روایت میں مشغول ہوتے، یا اگر کوئی اصل ملا تو اس میں ایسی علتیں دیکھیں کہ ان کو چھوڑ دیا دونوں صورتوں میں یہ روایتیں قابل اعتماد نہیں ہیں اور اس قسم کی حدیثیں کئی کتابوں میں پائی جاتی ہیں جن میں سے حبان کی تاب الضعفاء اور حاکم و فردوس دیلمی کی تصانیف ہیں۔
اور جو حدیث مسند حاکم سے نقل کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ مسند حاکم کی نہیں ہے بلکہ مستدرک حاکم کی ہے، اور جو حدیث اس سے نقل کی ہے در باب پڑھنے قل ہو اللہ کے کلوخ پر اور رکھنے قبر میں مردہ کے ساتھ وہ بھی محض واہی اور بے اصل ہے، کیونکہ یہ حدیث کتب معتبرہ میں ثابت نہیں ہوئی۔ اور صدر اول و ثانی و ثالث میں درمیان فقہاء مجتہدین او رمحدثین محققین کے شہرت نہ پائی، اور مستدرک حاکم میں بقدر ربع احادیث کے واہیات اور مناکیر بلکہ بعض موضوعات بھی ہیں، اسی واسطے تمام مستدرک حاکم کی معیوب ہوئی، جیسے کہ مولانا شاہ عبد العزیز قدس سرہ نے بستان المحدثین میں لکھا ہے، اور جو کتاب نور العین وغیرہ سے نقل کی ہے، وہ بھی صحیح اور قابل تمسک کے نہیں، کیونکہ ائمہ اربعہ اور محدثین اور متقدمین اور متاخرین سے ثابت نہیں اور قرون ثلاثہ میں درمیان فقہاء اور محدثین کے شہرت نہیں ہوئی اور محدثین نقاد نے اپنی کتاب میں بسند صحیح راویان ثقات سے نقل نہیں کی ہے اور حدیث کی صحت کا دارومدار اوپر سند صحیح راوایان ثقات سے ہے، کتب معتبرہ متعد اولہ میں غرباً و شرقاً جیسے کہ اصول حدیث اور فقہ میں مفصلاً مذکور ہے، واللہ اعلم بالصواب
(الراقم العاجز سید محمد نذیر حسین عفی عنہ، سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱)
نعم التحقیق وحبذ التوفیق والحق ان ھذا الشئی حجاب فاعتبروا یا اولی الالباب
(محمد عبد الرب، حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ، محمد اسد علی، اسلام آبادی)