الحمد للہ.
بخاری: (1145) اور مسلم: (758) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت رات کی آخری تہائی باقی رہ جائے ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، اور اعلان کرتا ہے: "کو ن ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے دوں، اور کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہے تو اسے بخش دوں")
آسمانِ دنیا تک نزولِ الہی کی حد بندی کیلئے روایات بہت زیادہ ہیں جن میں "رات کی آخری تہائی" کے ذریعے اس وقت کی حد بندی کی گئی ہے، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: "یہ حدیث صحیح ترین روایت ہے" سنن ترمذی: (2/309)
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ رات کے چھ حصوں میں سے پانچواں سدس ہی بس نزولِ الہی کا وقت ہے؛ کیونکہ رات کی آخری تہائی میں پانچواں اور چھٹا سدس حصہ دونوں ہی شامل ہیں ان دونوں کے ملنے سے آخری تہائی مکمل ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ نزولِ الہی کا وقت رات کی آخری تہائی ہے، اور اس تہائی کی ابتدا رات کے پانچویں سدس سے شروع ہوتی ہے۔
مزید یہ بھی ہے کہ کچھ روایات میں نزولِ الہی کے وقت کو فجر تک بیان کیا گیا ہے، جیسے کہ صحیح مسلم (758) میں ہے کہ: ([نزول الہی] اسی طرح برقرار رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر پھوٹ پڑے)
اس سے معاملہ مزید واضح ہو گیا کہ نزولِ الہی کی ابتدا رات کی آخری تہائی میں شروع ہوتی ہے، جو کہ رات کے چھ حصوں میں سے پانچویں اور چھٹے سدس پر مشتمل ہوتی ہے۔
یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ رات کے پانچویں سدس حصے کو خصوصیت حاصل ہے کہ اس وقت میں دعا کی قبولیت کا امکان اور زیادہ بڑھ جاتا ہے، جیسے کہ
ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ سے عرض کیا گیا: "کون سی دعا قبول ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کے آخری حصہ کا وسطی دورانیہ، اور فرض نمازوں کے آخر میں) ترمذی (3499) البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
متعدد اہل علم " رات کے آخری حصہ کا وسطی دورانیہ " سے مراد رات کی آخری تہائی ہی لیتے ہیں، اور یہی آخری تہائی -جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ -رات کے پانچویں اور چھٹے سدس حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔
خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: "کن اوقات کی زیادہ قبول ہوتی ہے" کا مطلب یہ ہے کہ کس وقت میں دعا بہتر ہے اور قبولیت کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں؟ یہ بات بالکل اسی جملے کی طرح ہے جو ضماد ازدی نے اس وقت کہی تھی جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی دعوت سنی، اس نے کہا تھا: "میں [محمد سے] ایسی بات سنی جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی" مطلب یہ تھا کہ دل پر اس انداز سے اثر کرنے والی بات کبھی نہیں سنی"
"جوف اللیل الآخر" سے مراد رات کے چھ حصوں میں سے پانچواں حصہ ہے، یہی معنی اس حدیث سے بھی مطابقت رکھتا ہے جس میں ہے کہ: (اللہ تعالی رات کی آخری تہائی کے بعد آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، اور کہتا ہے: کوئی منگتا ہے کہ اسے دے دیا جائے؟ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اسے بخش دیا جائے) انتہی
"غریب الحدیث" از: خطابی (1/134)
اور ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس بارے میں یہ حدیث بھی ہے کہ: آپ سے عرض کیا گیا: " رات کی کون سی[گھڑی میں دعا]زیادہ سنی جاتی ہے" تو آپ نے فرمایا: (جوف اللیل الآخر) یعنی آخری تہائی، اور یہ رات کے چھ حصوں میں سے پانچویں حصے سے شروع ہوتی ہے" انتہی
"النهاية" (1/841)
مرتضی زبیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اور "جوف اللیل" سے مراد آخری حصہ ہے، یہی مراد اس حدیث میں بھی ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: " رات کی کون سی[گھڑی میں دعا]زیادہ سنی جاتی ہے" تو آپ نے فرمایا: (جوف اللیل الآخر) یعنی آخری تہائی، اور یہ رات کے چھ حصوں میں سے پانچویں حصے سے شروع ہوتی ہے ، اور کچھ لوگوں کے ہاں یہاں آدھی رات کا معنی ہے جو کہ درست نہیں ہے" انتہی
"تاج العروس" (23/108)
واللہ اعلم.