الحمد للہ.
انسان کی زندگی کی تین اقسام ہیں :
1- دنیاوی زندگی جو کہ موت سے ختم ہو جاتی ہے ۔
2- برزخی زندگی جو کہ موت کے بعد قیامت تک ہے ۔
3- آخروی زندگی جو کہ لوگوں کے قبروں سے نکلنے کے بعد جنت کی طرف جانا اللہ تعالی سے ہم اس کا فضل مانگتے ہیں اور پا پھر آگ کی طرف جانا اس سے اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے ۔
برزخی زندگی جو کہ انسان کی موت کے بعد سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک ہے اگرچہ وہ قبر میں جائے یا اسے وحشی جانور کھا جائیں یا پھر وہ جل جائے اس زندگی کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اپنے گھر والوں کے پاؤں کی آہٹ سنتی ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔
تو یہ زندگی یا تو نعمتوں والی ہو گی اور یا پھر آگ سے بھر پور اور قبر بھی یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ اور یا پھر آگ کے گڑہوں میں سے ایک گڑھا ہو گی ۔
اور اس زندگی میں عذاب اور نعمتوں کی دلیل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
( آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لآئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی ( فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ) غافر / 46
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : آل فرعون اور کفار میں سے جو بھی اس جیسا ہو ان کی روحیں صبح اور شام آگ کی طرف لے جائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا گھر ہے ۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اہل سنت کے استدلال کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ برزخی زندگی میں قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے ۔ تفسیر ابن کثیر ( 4/ 82)
امام قرطبی کا فرمان ہے کہ : بعض اہل علم نے اس آیت سے عذاب قبر پر استلال کیا ہے :
( آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لآئے جاتے ہیں )
اور اسی طرح مجاہد اور عکرمہ اور مقاتل اور محمد بن کعب رحمہم اللہ سب نے یہی کہا کہ یہ آیت عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نے آخرت کے عذاب کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ:
( اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ) تفسیر قرطبی (15/ 319)
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( تم میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اس پر صبح اور شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے تو جو شخص جنتی ہو اسے جنت کا اور جو جہنمی ہو اسے جہنم کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے )
صحیح بخاری (بدء الخلق حدیث نمبر 3001) صحیح مسلم (الجنۃ وصفۃ نعیمہا حدیث نمبر 2866)
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک یہودی عورت آئی تو اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہنے لگی کہ اللہ تعالی آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں عذاب قبر ہے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے دیکھا ۔
صحیح البخاری ( الجنائز حدیث نمبر 1283) صحیح مسلم ( الکسوف حدیث نمبر 903)
مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اور ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو عذاب مسلسل مل رہا ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی عذاب قبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ :
اگر انسان کافر ہے اللہ تعالی اس سے بچا کے رکھے تو وہ کبھی بھی نعمتوں کو نہیں پا سکتا اور اسے مسلسل عذاب ہو گا لیکن اگر وہ مومن اور گنہگار ہے تو اسے قبر میں عذاب اس کے گناہ کے حساب سے ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے اس برزخ سے جو کہ اس کی موت اور قیامت تک ہے گناہوں کا عذاب کم ہو تو اس وقت منقطع ہو گا ۔
اھ شرع الممتع جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 253
مزید تفصیل کے لۓ سوال نمبر (7862) کا جواب دیکھیں
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:21212