الحمد للہ.
اول:
حسن خاتمہ.....
حسن خاتمہ يہ ہے كہ: بندے كو موت سے قبل ايسے افعال سے دور رہنے كى توفيق مل جائے جو اللہ رب العزت كو ناراض اورغضبناك كرتے ہيں، اور پچھلے كيے ہوئے گناہوں اور معاصى سے توب و استغفار كى توفيق حاصل ہو جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ اعمال خير كرنا شروع كردے، تو پھر اس حالت كے بعد اسے موت آئے تو يہ حسن خاتمہ ہو گا.
اس معنى پر دلالت كرنے والى مندرجہ ذيل صحيح حديث ہے.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" جب اللہ تعالى اپنے بندے سے خير اور بھلائى چاہتا ہے تو اسے استعمال كر ليتا ہے"
تو صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے عرض كيا: اسے كيسے استعمال كر ليتا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسے موت سے قبل اعمال صالحہ كى توفيق عطا فرما ديتا ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 11625 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 2142 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1334 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب اللہ تعالى كسى بندے كےساتھ خير اور بھلائى كا ارادہ كرتا ہے تو اسے توشہ ديتا ہے"
كہا گيا كہ: اسے كيا توشہ ديتا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى موت سے قبل اللہ تعالى اس كے ليےاعمال صالحہ آسان كر ديتا ہے، اور پھر ان اعمال صالحہ پر ہى اس كى روح قبض كرتا ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 17330 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1114 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور حسن خاتمہ كى كئى ايك علامات بھى ہيں، جن ميں كچھ تو مرنے والا موت كے قريب جان ليتا ہے، اور كچھ ايسى بھى ہيں جو لوگوں كے ليے بھى ظاہر ہو جاتى ہيں:
دوم:
حسن خاتمہ كى وہ علامتيں جو مرنے والے كے ليے ظاہر ہو جاتى ہيں، ان ميں سے ايك تو يہ ہے كہ اسے موت كے وقت اللہ تعالى كى رضامندى و خوشنودى كى خوشخبرى دى جاتى ہے، اور اللہ تعالى كے فضل و كرم سے وہ عزت و تكريم كا استحقاق حاصل كرتا ہے.
جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
واقعى جن لوگوں نے كہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور پھر اسى پر قائم رہے ان كے پاس فرشتے ( يہ كہتے ہوئے ) آتے ہيں كہ تم كچھ بھى انديشہ اور غم نہ كرو بلكہ اس كى جنت كى بشارت سن لو جس كا تم سے وعدہ كيا جاتا رہا ہے فصلت ( 30 ).
تو يہ بشارت مومنوں كو ان كى موت كے وقت ملتى ہے.
ديكھيں: تفسير ابن سعدى ( 1256 ).
اور اس معنى پر مندرجہ ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے:
ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص اللہ تعالى سے ملاقات كرنا پسند كرتا ہے، اللہ تعالى بھى اس سے ملنا پسند كرتا، اور جو شخص اللہ تعالى سے ملنا ناپسند كرتا ہے، تو اللہ تعالى بھى اس سے ملنا ناپسند كرتا ہے"
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كيا موت كو ناپسند كرتے ہوئے، پھر تو ہم سب موت كو ناپسند كرتے ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" معاملہ ايسا نہيں، ليكن جب مومن شخص كو اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى رضامندى و خوشنودى اور اس كى جنت كى خوشخبرى ملتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات سے محبت كرنے لگتا ہے، اور بلا شبہ جب كافر شخص كو اللہ تعالى كے عذاب اور اس كى ناراضگى كى خبر دى جاتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات كو ناپسند كرنے لگتا ہے، اور اللہ تعالى بھى اس سے ملنے كو ناپسند كرتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6507 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2683 )
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اس حديث كا معنى يہ ہے كہ:
وہ محبت اور كراہيت جس كا شرعى طور پر اعتبار كيا جاتا ہے وہى حالت نزع كے وقت واقع ہوتى ہے جس حالت ميں توبہ قبول نہيں ہوتى، كہ اس وقت قريب المرگ شخص كے سامنے سارى حالت ظاہر ہو جاتى ہے، اور جس كى طرف وہ جانے والا ہوتا ہے وہ اس كے سامنے ظاہر ہو چكا ہوتا ہے ).
اور حسن خاتمہ كى علامات تو بہت زيادہ ہيں، علماء رحمہم اللہ تعالى نے اس بارہ ميں وارد شدہ نصوص كو سامنے ركھتے ہوئے ان كا تتبع بھىكيا ہے، ان علامات ميں سے چند درج ذيل ہيں:
1 - موت كے وقت كلمہ شھادت پڑھنا، اس كى دليل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" جس شخص كى آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت ميں داخل ہو گيا"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3116 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابوداود حديث نمبر ( 2673 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 - پيشانى كے پسينے سے موت آنا:
يعنى اس كى موت كے وقت پيشانى پر پسينے كے قطرے ہوں، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
بريدہ بن الحصيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" مومن كى موت پيشانى كے پسينے سے ہوتى ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 22513 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 980 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1828 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
3 - جمعہ كى رات يا دن ميں موت آنا:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص بھى جمعہ كى رات يا جمعہ والے دن فوت ہوتا ہے اللہ تعالى اسے قبر كےفتنہ سے محفوظ ركھتا ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 6546 ) جامع ترمذى حديث نمبر ( 1074 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث اپنے سب طرق كے ساتھ حسن يا صحيح ہے.
4 - اللہ تعالى كى راہ ميں لڑتے ہوئے موت آنا:
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ اللہ تعالى كى راہ ميں شہيد كيے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس رزق ديے جارہے ہيں، اللہ تعالى نے جو انہيں اپنا فضل دے ركھا ہے اس سے وہ بہت خوش ہيں اور خوشياں منا رہے ہيں، ان لوگوں كى بابت جو اب تك ان سے نہيں ملے، ان كے پيچھے ہيں، اس پر كہ نہ انہيں كوئى خوف ہے اور نہ غمگين ہونگے، وہ خوش ہوتے ہيں اللہ تعالى كى نعمت اور فضل سے اوراس سے بھى كہ اللہ تعالى ايمان والوں كےاجرو ثواب كو ضائع نہيں كرتا آل عمران ( 169 - 172 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو اللہ تعالى كى راہ ميں قتل كرديا گيا وہ شہيد ہے، اور جو اللہ تعالى كى راہ ميں فوت ہوا وہ شہيد ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 ).
5 - طاعون كى بيمارى سے موت واقع ہونى:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" طاعون ہرمسلمان كے ليے شھادت ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2830 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1916 )
اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے طاعون كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے مجھے بتايا كہ:
" يہ اللہ تعالى كا عذاب ہے جس پر چاہے اللہ تعالى مسلط كردے، اور اللہ تعالى نے اسے مومنوں كے ليے رحمت كا باعث بنايا ہے، جو كوئى بھى طاعون كى بيمارى ميں پڑ جائے اور پھر وہ صبر اور اللہ تعالى سے اجروثواب كى اميد ركھتے ہوئے اپنے علاقے ميں ہى رہے، اسے يہ علم ہو كہ اسے وہى تكليف پہنچ سكتى ہے جو اللہ تعالى نے اس كے مقدر ميں لكھ دى ہے، تو اسے شہيد جتنا اجروثواب حاصل ہوگا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3474 ).
6 - پيٹ كى بيمارى سے موت واقع ہونا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور جو پيٹ كى بيمارى سے فوت ہوا وہ شھيد ہے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1915 ).
7 - ڈوبنے اور منہدم شدہ كے نيچے دب كر موت واقع ہونا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" شھيد پانچ قسم كے ہيں: طاعون كى بيمارى سے فوت ہونےوالا، اور پيٹ كى بيمارى سے فوت ہونے والا، اور پانى ميں غرق ہونے والا، اور دب كر مرنے والا، اور اللہ تعالى كى راہ ميں شھيد ہونے والا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2829 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 )
8 - اپنے بچے كى وجہ سے عورت كا نفاس ميں يا حاملہ فوت ہونا:
اس كے دلائل درج ذيل ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اوروہ عورت جو اپنے حمل كى بنا پر فوت ہو وہ شہيد ہے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3111 )
خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كا معنى يہ ہے كہ وہ فوت ہوتو بچہ اس كے پيٹ ميں ہو. اھـ
ديكھيں عون المعبود
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء كے متعلق بتاتے ہوئے فرمايا:
" اور وہ عورت جسے اس كا بچہ حمل كى حالت ميں قتل كردے يہ بھى شھادت ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 17341 )
( اسے اس كا بچہ اپنے نال ( پيدائش كے بعد ناف سے كاٹا جاتا ہے ) كے ساتھ جنت ميں كھينچ لے گا )
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے كتاب الجنائز صفحہ نمبر ( 39 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
9 - جلنے، اور ذات الجنب اور سل كى بيمارى سے موت آنا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى كى راہ ميں قتل ہونا شھادت ہے، اور طاعون شھادت ہے، اور غرق شھادت ہے، اور پيٹ كى بيمارى سے مرنا شھادت ہے، اور نفاس ميں مرنے والى عورت شھيد ہے، اسےاس كا بيٹا اپنے نال كے ساتھ جنت ميں كھينچےگا"
وہ كہتے ہيں كہ: بيت المقدس كے دربان نے يہ الفاظ زيادہ كيے ہيں:
" جلنے اور سل كى بيمارى سے مرنے والا"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں: حسن صحيح ہے، ديكھيں: صحيح الترغيب والترھيب حديث نمبر ( 1396 ).
10 - دين يا مال يا اپنى جان كا دفاع كرتے ہوئے مرنا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى اپنا مال بچاتا ہوا قتل ہو وہ شھيد ہے، اور جو كوئى اپنا دين بچاتا ہوا قتل ہو وہ شھيد ہے، اور جو كوئى اپنا خون اور جان بچاتے ہوئے قتل ہو وہ شھيد ہے"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1421 ).
اور امام بخارى و مسلم رحمہما اللہ نے عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:
" جو اپنے مال كا دفاع كرتا ہوا قتل ہو جائے وہ شھيد ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2480 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 141 ).
اللہ تعالى كى راہ ميں پہرہ ديتے ہوئے موت آنا:
سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك دن اور رات كا پہرہ ايك ماہ كے روزے اور قيام سے بہتر ہے، اور اگر وہ مرجائے تو اس عمل كا اجر جارى رہتا ہے جو كر رہا تھا، اور اس كا رزق بھى جارى رہتا ہے، اور وہ فتنے سے محفوظ رہتا ہے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1913 ).
12 - اور حسن خاتمہ كى يہ علامت ہے كہ:
كسى نيك اور صالح عمل كو انجام ديتے ہوئے موت واقع ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اللہ تعالى كى رضامندى اورخوشنودى كےليے لا الہ الا اللہ كہا اور اس كا خاتمہ اس پر ہوا وہ جنت ميں داخل ہوگا، اور جس نے صدقہ كيا اوراس پر اس كا خاتمہ ہوا تووہ جنت ميں داخل ہو گا"
مسند احمد حديث نمبر ( 22813 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے كتاب الجنائز صفحہ ( 43 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ علامتيں اچھى خوشخبري ميں سے ہيں جو حسن خاتمہ پر دلالت كرتى ہيں، ليكن اسكے باوجود ہم يقينا كسى بعينہ شخص كے ليے يہ نہيں كہہ سكتے كہ وہ جنتى ہے، ليكن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنتى ہونے كى بشارت دے دى ہے، مثلا خلفاء اربعہ اور عشرہ مبشرہ.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہےكہ وہ ہميں حسن خاتمہ نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:10903