مسجد کے امام اور موذن جن کے بغیر مسجد کی خدمت ادا نہیں ہو سکتی، ان کو تنخواہ دینا لینا ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں؟
امامت اور اذان پر ماہانہ تنخواہ لینا شرط کر کے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زدیک ممنوع ہے۔
لَا یجوز الا ستیجار علی الاذان والحج وکذا الاحاجة وتعلیم القران والفقه والاصل ان کل طاعة یختص بھا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا (ہدایہ)
قال ابن المنذر ثبت ان رسول اللّٰہ قال لعثمان بن ابی العاص واتخذوا مؤذناً لا یاخذ علی اذانہٖ اجراً واخرج ابن حبان عن یحیی الہکالی قال سمعت رجلا قال لا بن عمرانی لا حبك فی اللہ قال له ابن عمرانی لا بغضك فی اللہ فقال سبحان اللہ احبك فی اللہ وتبغضنی فی اللہ قال نمم انك تسئل عل ذالك اجراً وروی عن ابن مسعود انہ قال اربع لا یوخذ علیھن اجر الااذان و قرأة القران والقضاء۔ (نیل الاوطار صفحہ ۳۵۷ ج۱)
اور متاخرین حنیفہ و دیگر ائمہ کے نزدیک امامت اور اذان پر تنخواہ لینی جائز ہے۔
ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقرا والامامة والاذان ویجیر المستاجر علی دفع ما قیل فیجب المسمی بعقد واجر المثل اذا لم یذکر مدة (در مختار)
میرے نزدیک راجح یہ ہے ک شرط اور طے کر کے ماہانہ مقرر تنخواہ لینا مکروہ ہے۔ ہاں اگر مؤذن یا امام کو بغیر شرط اور سوال کے بطریق اکرام کے کچھ دے دیا جائے تو اس کا قبول کرنا جائز اور بلا کراہت مباح و درست ہے۔ (مولانا) عبید اللہ رحمانی، شیخ الحدیث و مفتی مدرسہ ، المحدث جلد نمبر ۱، نمبر ۳)