الحمد للہ.
اول:
بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب تحویلِ قبلہ کا واقعہ بنیادی طور پر قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر ہے، اور اس کی کچھ تفصیلات احادیث نبویہ میں بھی آئی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
(سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (142) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (143) قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا ؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔[142] اور اسی طرح (اے مسلمانو ! ) ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔ یہ قبلہ کی تبدیلی ایک مشکل سی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے (چنداں مشکل نہیں) جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے [143] ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو، اپنا رخ اسی کی طرف پھیرلیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب (تورات) دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب کی طرف سے ہے اور بالکل درست ہے۔ (اس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔ [سورة البقرة : 142 – 144]
بخاری : (41) میں براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ننہال میں یا اپنے ماموؤں کے ہاں قیام کیا جو کہ انصار تھے، اور آپ نے [ہجرت کے بعد]سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، مگر آپ کی یہ خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے [چنانچہ ایسا ہو گیا] اور سب سے پہلی نماز جو آپ نے [کعبہ کی طرف] پڑھی عصر کی نماز تھی ، اور جو آپ کے ہمراہ کچھ لوگ نماز میں تھے ان میں سے ایک شخص نکلا اور اس کا کسی مسجد کے لوگوں پر اس کا گزر ہوا اور وہ [بیت المقدس کی طرف]نماز پڑھ رہے تھے، تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے، اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے اور جب آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے، یہود بہت خوش تھے، مگر جب آپ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا تو یہ ان کو ناگوار ہوا۔
اور مسلم: (527) میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ، پھر جب آیت کریمہ [قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ]نازل ہوئی [ترجمہ: ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے] تو بنو سلمہ میں سے ایک آدمی ادھر سے گزر رہا تھا وہ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلہ کی طرف پھر گئے"
اسی طرح ایک اور مسلم کی روایت: (526) میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ایک مرتبہ لوگ صبح کی نماز قباء میں پڑھ رہے تھے اسی دوران ایک آنے والے نے آکر کہا کہ رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوا ہے اور بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے ان کے منہ شام کی طرف تھے پھر کعبہ کی طرف گھوم گئے"
دوم:
جب صحابہ کرام کو تحویل قبلہ کی خبر ملی تو ان کے نماز کے دوران گھومنے کی کیفیت کیا تھی؟ وہ کچھ اس طرح تھی کہ امام اور ان کے ساتھ مقتدی سب کے سب اپنی جگہ سے نصف دائری شکل میں گھوم گئے اور امام کعبہ کی جانب سے مسجد کے آخری حصے میں پہنچ گئے اور مرد ان کے پیچھے اور پھر مردوں کے پیچھے خواتین۔
نیز سابقہ احادیث میں جو لفظ گزرے ہیں کہ صحابہ کرام گھوم گئے یا پھر گئے اس سے لازم نہیں آتا کہ امام صفوں کو چیر کر آگے نکلے ہوں بلکہ ایسا ممکن ہے کہ صرف گھومے ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تحویل قبلہ کی کیفیت ثویلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا نے بیان کی ہے جو کہ ابن ابی حاتم میں موجود ہے، انہوں نے اس کی قدرے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ: "خواتین مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد خواتین کی جگہ آ گئے، اس طرح ہم نے باقی دو رکعتیں بیت اللہ کی جانب رخ کر کے ادا کیں"
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: اس منظر کی تصویر کشی اس انداز سے کرنا کہ امام مسجد کے آگے والے حصے سے پچھلے حصے میں چلے جائیں ؛ کیونکہ قبلہ رخ ہونے پر بیت المقدس کی جانب پیٹھ ہوتی ہے اور اگر امام اپنی جگہ پر کھڑا کھڑا ہی گھوم جائے تو اس کے پیچھے کوئی صف باقی بچتی ہی نہیں ، چنانچہ جب امام صاحب نے جگہ تبدیل کی تو مردوں نے بھی گھوم کر امام صاحب کے پیچھے صف بنائی، اور خواتین نے اپنی جگہ تبدیل کر کے مردوں کے پیچھے نماز کیلیے صف بنائی۔
ان سارے مراحل کیلیے دورانِ نماز زیادہ حرکت ہے، تو اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ نماز میں زیادہ حرکت کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہو ، کیونکہ یہ یقینی ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصلحت کی بنا پر مذکورہ بہت زیادہ حرکت کو معاف کر دیا گیا، یا پھر تحویل قبلہ کیلیےیہ کہا جائے کہ دورانِ نماز مسلسل قدم نہیں اٹھائے گئے بلکہ وقفے وقفے سے قدم اٹھائے گئے تھے، واللہ اعلم" انتہی
" فتح الباری " (1/506 – 507) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
مزید کیلیے آپ تفسیر ابن کثیر (1/167، 470) کا مطالعہ کریں۔
سوم:
عبادت اور ثواب کی غرض سے مدینہ نبویہ میں سات جگہوں اور مقامات کی زیارت کرنا شرعی عمل نہیں ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سات مساجد ، مسجد قبلتین اور دیگر مساجد جن کا چند حج عمرہ کے متعلق گفتگو کرنے والوں نے تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے مومن کیلیے شرعی عمل یہی ہے کہ سنت کے مطابق عمل کریں بدعات اور خود ساختہ طریقوں پر نہیں" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (6/321)
واللہ اعلم.