الحمد للہ.
مسند احمد : (15645 – طبع الرسالہ) اور ابو داود: (1241) -یہ الفاظ ابو داود کے ہیں کہ-
سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل بھی کرے تو اس کے والدین کو قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا، اس کی روشنی تمہارے دنیاوی گھروں میں ہونے والی سورج کی روشنی سے زیادہ اچھی ہو گی۔ تو خود قرآن پڑھنے اور عمل کرنے والے کا کیا مقام ہو گا؟)
ا س حدیث کو البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ مکتبہ الرسالہ کے طبع میں مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ کہا ہے۔
مسند احمد: (22950)میں سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صاحبِ قرآن کے بارے میں فرمایا: (اس کے سر پر تاج الوقار رکھا جائے گا، اس کے والدین کو ایسا لباس پہنایا جائے گا کہ اہل دنیا اس کی قیمت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، اس پر وہ دونوں کہیں گے: ہمیں یہ قیمتی لباس کیوں پہنایا گیا ہے؟ تو کہا جائے گا: تم دونوں کی اولاد کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے۔ پھر حافظ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھو اور جنت کے درجات اور بالا خانوں میں چڑھتے جاؤ، تو وہ آہستہ پڑھے یا ٹھہر ٹھہر کر جب تک پڑھتا رہے گا چڑھتا جائے گا۔)
مسند احمد کے طبع رسالہ کے محققین کہتے ہیں:
"اس کی سند متابعات اور شواہد میں بشیر بن مہاجر غنوی کی وجہ سے حسن درجے کی ہے، جبکہ اس روایت کے بقیہ راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں، نیز اس حدیث کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر: (1/62) میں اسے حسن قرار دیا ہے، تاہم اس حدیث کے کچھ حصے کے ایسے شواہد بھی ہیں جن سے وہ صحیح کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔" ختم شد
سابقہ احادیث کے ظاہر سے یہی لگتا ہے کہ یہ اجر حافظ قرآن کے صرف والدین کے لیے ہے؛ کیونکہ عربی زبان میں لفظ "ابواہ" کہنے سے والدین ہی ذہن میں آتے ہیں، اسی لیے تثنیہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اگر والدین کے ساتھ دادا وغیرہ بھی شامل ہونے ہوتے تو جمع کا لفظ بولا جاتا۔
واللہ اعلم