الحمد للہ.
اول:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ میرے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں)
اس حدیث کو امام بخاری: (7405) اور مسلم : (2675) نے روایت کیا ہے۔
جبکہ سوال میں مذکور حدیث مسند احمد: (16016) وغیرہ میں ہے کہ :
سلیمان بن ابو سائب کہتے ہیں کہ ابو نضر حیان نے مجھے بتلایا کہ میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ابو الاسود جرشی کے پاس ان کے مرض الموت میں گیا، تو انہوں نے ابوالاسود کو سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس پر ابو الاسود نے واثلہ کا دایاں ہاتھ پکڑا اور اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا؛ کیونکہ واثلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دائیں ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں؟ انہوں نے کہا: وہ کیا؟ سیدنا واثلہ نے کہا: آپ کا اللہ تعالی کے بارے میں کیا گمان ہے؟ اس پر ابو الاسود نے اپنے سر سے اشارہ کر دیا کہ میرا اللہ تعالی کے بارے میں اچھا گمان ہے۔ تو پھر سیدنا واثلہ نے انہیں کہا: تو خوش ہو جاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں اب وہ میرے بارے میں جو مرضی گمان کر لے)
مسند احمد -موسسہ رسالہ -کے محققین کہتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور صحیح الجامع میں البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا کہنا ہے کہ: قریب المرگ شخص کے لیے اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے امید کرے کہ اللہ تعالی اس پر رحمت فرمائے گا اور اسے معاف فرما دے گا۔ جبکہ صحت کی حالت میں یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کی امید اور اللہ کی پکڑ کا خوف دونوں یکساں ہونے چاہییں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ : صحت کی حالت میں خوف غالب رکھے اور جب انسان قریب المرگ ہو ، موت کی نشانیاں نظر آنے لگیں تو پھر امید غالب رکھے یا صرف رحمت کی امید ہی لگائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی پکڑ کا خوف اس مقصد سے ہوتا ہے کہ انسان گناہوں اور نافرمانیوں سے بچتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اچھے اعمال بجا لائے، اور قریب المرگ شخص اب کوئی نیکی یا تو بالکل نہیں کر سکتا یا بہت کم کر سکتا ہے اس لیے اس حالت میں مستحب ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں حسن ظن رکھے اور ساتھ میں اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور اطاعت گزاری کا مظاہرہ بھی کرے۔" ختم شد
"شرح النووي على مسلم" (17/ 210)
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (میں اپنے بندے کے ساتھ میرے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، اگر اچھا گمان کرے تو اس کے لیے اچھا ہو گا، اور اگر برا گمان کرے تو اس کے لیے برا ہو گا۔) اس حدیث کو بھی مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی : اگر بندہ اللہ تعالی کے بارے میں اچھا گمان کرے تو میں اس کے ساتھ اچھا معاملہ کروں گا اور اگر میرے بارے میں گمان اچھا نہیں رکھتا تو پھر میں بھی اس کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کروں گا۔" ختم شد
"فيض القدير" (2/ 312)
چنانچہ مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھے، اچھے اچھے اعمال بجا لائے، اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہے ۔ اور اگر کبھی کوئی غلطی اور کوتاہی ہو جائے تو فوری توبہ کرے تاخیر مت کرے، نیز اللہ تعالی سے امید رکھے کہ اللہ تعالی اسے معاف فرما دے اور گناہوں سے درگزر فرمائے۔
دوم:
فرمانِ باری تعالی ہے:
أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ: کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہو گئے ہیں حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو نقصان اٹھانے والی ہو۔ [الاعراف: 99]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ: یہاں لوگوں کو ڈرانا مقصود ہے کہ لوگ گناہوں پر ڈٹے رہیں اور اللہ تعالی کے حقوق پامال کریں اور پھر بھی اللہ کی تدبیر سے بے خوف رہیں! یہاں اللہ تعالی کی تدبیر سے مراد یہ ہے کہ: لوگوں کے گناہوں اور نافرمانی والے اعمال کے باوجود اللہ تعالی انہیں تسلسل کے ساتھ ڈھیل دے رہا ہے، ان پر ڈھیروں نعمتیں اور رحمتیں نازل کر رہا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے گناہوں اور اللہ تعالی کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر فوری عذاب اور پکڑ نازل ہو، تو یہ لوگ اللہ تعالی کے عذاب اور غضب سے بے خوف ہو چکے ہیں۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (24/ 232)
آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"مسلمان پر لازم ہے کہ کبھی بھی مایوس نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالی سے بے خوف ہو، ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے مایوس ہونے والوں کی جس طرح مذمت کی ہے اسی طرح بے خوف ہو جانے والوں کی بھی مذمت فرمائی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ: کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہو گئے ہیں حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو نقصان اٹھانے والی ہو۔ [الاعراف: 99]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے: { لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ } تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔
اس لیے مکلف شخص چاہے کوئی مرد ہے یا عورت مایوس نہ ہو، نا امید ہو کر اچھا عمل ترک نہ کرے ، بلکہ ہمیشہ امید اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں رہے کہ اللہ کے عذاب کا بھی ڈر ہو، گناہوں سے دور رہے اور اگر گناہ ہو جائے تو فوری توبہ کرے، اللہ تعالی سے معافی مانگتا رہے، اللہ تعالی کی تدبیر سے بے خوف ہو کر نافرمانی اور سستی میں ملوث نہ ہو جائے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (4/ 38)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لیے حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ : مومن شخص ڈر اور خوف دل میں رکھے ہوئے نیکیاں کرتا ہے، جبکہ فاجر شخص گناہ کرتے ہوئے بھی ڈر اور خوف دل میں نہیں لاتا۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (3/ 451)
سوم:
کچھ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منسوب بات ذکر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اسی بات کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کرتے ہیں کہ: "اگر میرا ایک قدم جنت میں ہو اور دوسرا جنت سے باہر ہو تو تب بھی اللہ کی تدبیر کا خوف میرے دل میں ہو گا۔" تو ایسی کوئی بات ہمیں محدثین کی کتب میں نہیں ملی، نہ ہی ہمیں کسی اہل علم سے اس بات کا تذکر ملا ہے۔
اس حوالے سے شیخ البانی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"مجھے ایسی کسی بات کا علم نہیں ہے۔" ختم شد
لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مقولہ ثابت ہی نہیں ہے، پھر دوسری بات یہ ہے کہ مومن اللہ کی تدبیر کا خوف جنت میں داخل ہونے تک رکھتا ہے، لیکن جب ایک قدم جنت میں چلا گیا تو اللہ کی تدبیر سے امن میں ہے؛ کیونکہ ایسا کہیں نہیں ہے کہ کسی نے جنت میں ایک قدم رکھا اور اللہ تعالی نے اسے جنت سے نکال کر جہنم میں پھینک دیا!
امام احمد رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا:
"انسان کو راحت کب ملے گی؟ تو انہوں نے کہا: جب جنت میں پہلا قدم رکھے گا۔" ختم شد
"طبقات الحنابلة" (1/ 293)
واللہ اعلم