الحمد للہ.
1 - یہ حدیث کثرت طرق ہونے کے باوجود جو کہ ایک دوسری کو تقویت دیتے ہیں پھربھی کچھ فائدہ نہیں اوریہ حدیث ضعیف ہی ہے ۔
اس کی مختلف روایات اورالفاظ بھی مختلف ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ " اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ققھاء اورعلماء کے زمرہ میں اٹھاۓ گا ۔
اورایک روایت میں ہے کہ " اللہ تعالی اسے عالم اورفقیہ اٹھاۓ گا ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ " میں اس کے لیے قیامت کے دن شفارشی اورگواہ ہونگا ۔ اوربھی روایات ہیں ۔
ا - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
حسن بن سفیان نے اپنی " مسند " اور " اربعین " میں ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اورتیرہ صحابہ کرام سے یہ روایت مروی ہے جسے ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے " العلل المتناھیۃ " میں نقل اور ان سب کے ضعف کوبیان ہے ۔
اورابن منذر رحمہ اللہ تعالی نے انفرادی طورپرصرف اس حدیث پرہی ایک جزء میں کلام کی ہے ، اوراملاء کی پندرویں مجلس میں قول کا خلاصہ بیان کیا ہے اورپھر اس کے سب طرق ایک ہی جزء میں جمع کیے ہیں جن میں سے کوئ طریق بھی علت سے خالی نہيں ۔ التلخیص الحبیر ( 3 / 93 - 94 ) ۔
ب – ابن ملقن رحمہ اللہ تعالی کاکہنا ہے کہ :
( میری امت میں سے جس نے چالیس احادیث حفظ کیں اسے فقیہ لکھ دیا گيا ہے ) یہ حدیث تقریبا بیس طرق سے مروی ہے اوریہ سب کے سب طرق ضعیف ہیں ۔
دارقطنی کا قول ہے : اس کے سب طریق ضعیف ہیں ان میں سے کوئ بھی پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا ،
اورامام بیھقی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ : اس کی اسانید ضعیف ہیں ۔ دیکھیں " خلاصۃ البدر المنیر ( 2 / 145 ) ۔
اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
یہ متن تولوگوں میں مشہور ہے لیکن اس کی کوئ بھی سند صحیح نہيں ۔ دیکھیں : شعب الایمان ( 2 / 270 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :
سب حفاظ حدیث اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ حدیث کثیر الطرق ہونے کے باوجود ضعیف ہے ۔ دیکھیں مقدمہ اربعین نووی ۔
2 - یہاں پرجوبات کہنے کے لائق ہے وہ یہ کہ سنت نبویہ میں حدیث کو سننے اورآگے پہنچانے کی فضیلت بیان کی گئ ہے چاہے وہ ایک حدیث ہی کیوں نہ ہو ۔
زیدبن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :
( اللہ تعالی اس شخص کوتروتازہ وخوش خرم رکھے جس نے ہم سے حدیث سن کرحفظ کی اوراسے دوسرے تک پہنچایا ، کتنے ہی حدیث کوحفظ کرنے والے ایسے ہیں جو اسے اپنے سے بھی زیاد سمجھ دار تک پہنچانے والے ہیں ، اورکتنے ہی ایسے ہیں جوفقیہ نہیں )
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2656 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3660 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 230 ) امام ترمذي رحمہ اللہ نے اس حدیث کوحسن قراردیا ہے ،
مبارکپوری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اسے بہجہ اورسرور سے خاص کیا ہے اس لیے کہ دنیا میں علم ومعرفت کی بنا پراسے جولوگوں کے دومیان قدرومنزلت حاصل ہے اور آخرت میں بھی اس پر اس رونق اورعلامت ونعمت اورتروتازگی ہوگی ۔
اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ یہ خبر ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے تروتازگی والا بنایا ، اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دعائیہ کلمہ ہے کہ اللہ تعالی اسے تروتازہ اور خوش وخرم رکھے ، اوریہ نعمت کے اثر سے اس کے چہرے پرسرور اورخوشی ہے ۔دیکھیں : تحفۃ الاحوذي ( 7 / 347 - 348 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .