سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(375) اذان اور اقامت کے درمیان الفاظ میں تثویب

  • 2660
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1423

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اذان اور اقامت کے درمیان ان الفاظ میں تثویب (اعلام بعد اعلام) ہر نماز کے لیے پکارنا  ’’الصلٰوة والسلام علیك یا رسول اللّٰہ، الصلٰوة والسلام علیك یا رسول اللّٰہ، الصلٰوة والسلام علیك یا حبیب اللّٰہ جائز ہے یا ناجائز؟ لغت اور اصطلاح شرعیہ میں تثویب کے کیا معنی ہیں؟

 


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ناجائز ہے بدعت، کیوں کہ زمانہ رسالت اور عہد خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا، تثویب لغت میں اعلان کرنا ہے۔ اور اصطلاح شرع میں اذان نماز مکر پکارنا ہے۔ یہ رسول زمانہ صحابہ میں خال خال ہو گئی تھی اس لیے صحابہ کبار نے اس کو بدعت قرار دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں بعد اذان تثویب کی آواز سنی تو کہا کہ اس بدعتی کو مسجد سے نکال دو، ایسا ہی ابن عمر رضی اللہ عنہم نے تثویب کی آواز سنی تو کہا کہ چلو اٹھو ہم اس بدعتی کے پاس سے نکل چلیں۔ (حاشیہ سنبھلی بر ہدایہ ص۷۵ نمبر ۱۳)
ایک تثویب صبح کے وقت ہے یعنی  ’’الصلوة خیر من النوم‘‘ یہ جزو اذان ہے الگ نہیں اور اس کا ثبوت ملتا ہے۔ کیوں بلال رضی اللہ عنہ باجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں ایسا ہی کہتے تھے (ہدایہ حاشیہ سنبھلی نمبر ۱۷) اس کے سوا باقی ہر قسم کی تثویب بدعت ہے۔ اس میں اہل تسنن کے سکی فرقہ کا اختلاف نہیں۔  (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۳۰۱)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 168
محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ