میت کے دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے اکثر برادران احناف کا یہ معمول ہے کہ مردہ کو قبر میں اتارنے کے بعد اذان دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے۔ چنانچہ موجدان جدید نے بھی اپنے رسالہ میں بابت جواز اذان بعد دفن میت کے حوالہ امام شافعی کا دیا ہے۔ بِیِّنُوْا تُوْجَرُوْا۔
کسی میت کے دفن کے بعد اذان کہنا (جیسے کہ طریق اہل بدعت فی زماننا مروج ہے) ہر گز جائز و ثابت نہیں، مدار ثبوت ہر شے کا امت محمدیہ میں دلیل شرعی پر ہوتا ہے اور وہی حجت عند الامت ہے۔ لہٰذا ہر امر کے اثبات کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے اور وہ یہاں کلیۃً مفقود ہے، پس بعد انزاول میت در قبر اذان کہنا صریح بدعت و گمراہی ہے۔
لقولہ علیہ السلام من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد
’’جو کام بغرض استحان و احتساب کیا جائے، اور شریعت محمدیہ میں (قرآن و حدیث) اس کا ثبوت نہ ہو، وہ مردود و ناقابلِ قبول ہے۔ ‘‘ (بخاری و مسلم)
جن برادران احناف کا یہ معمول ہے اُن کا بھی کوئی مذہب و دین ہے۔ کبھی حنفی بنتے ہیں کبھی شافعی بن جاتے ہیں۔ حالانکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے اس اذان بدعیہ کا کوئی ثبوت نہیں، اور پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کوئی نبی نہیں، جو ان کا ہر قول و فعل قابل حجت ہو۔ نبی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ہاں امام شافعی وغیرہ ائمہ سے جو مسائل موافق کتاب و سنت کے ثابت ہیں، مثلاً امین بالجہر و رفع یدین، قرأت فاتحہ خلف الامام وغیرہ ان کو تو یہ برادران احناف مانتے نہیں اور جو امور بدعیہ مثلاً اذان علی المیت (تیجہ، دسواں، چالیسواں) وغیرہ اُن سے ثابت نہیں وہ لپک کر کرتے ہیں۔ فیا للّٰہ العجب وضیعة العلم والادب
نیز یہ موجدان جدید کیا بلا ہے۔ آیا اس سے مراد کوئی فرقہ ہے اور اس کا رسالہ کون سا ہے۔ کیا نام ہے ہمیں معلوم نہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بدعت نے اپنا یہ نام رکھا ہے۔ جس کے معنی ہوئے احداث فی الدین کے مرتکب، دین الٰہی میں نئے کام ایجاد کرنے والے، نئی نئی بدعتیں قائم کرنے والے، سو ایسے فرقے اور ایسے رسالوں سے خدا مسلمانوں کو پناہ دے، آمین۔ ہمارا دین تو محفوظ و مکمل ہے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ نئے نئے کام ایجاد کر کے بدعتی بنیں۔
الغرض موجدان جدید کا اپنے رسالہ میں بابت جواز اذان بعد میت کے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دینا بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر صریح بہتان و افتراء ہے، ہاں بعض جہلا شافعیہ کا یہ قول ہے۔ جس کو علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شافعی نے شرح عباب میں بتصریح تام رد کر دیا ہے۔ چنانچہ تفہیم المسائل مطبع مطیع الرحمان کے ص ۱۱۶ میں مرقوم ہے۔ ’’واذان قبر بعض شافعیہ مسنون گفتہ بودند ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ در شرح عباب برد اقوال ایشاں پرداختہ و خیر رملی در حاشیہ بحرمی گوید
ورأیت فی کتب الشافعیہ انہ قد سن الاذان لغیر الصلٰوة کاذان المولودو المھموم والمفزوع الٰی قولہ قیل وعند انزال المیت القبر قیاساً علٰی اوّل خروجہ من الدنیا لکن ردہ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فی شرح العباب
پس معلوم ہوا کہ یہ مسلک و مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں ہے اور بعض شوافع مقلدین جو بوجہ لا علمی کے اس طرف گئے ہیں۔ اُن کے اقوال رکیکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صاف رد کر دیا ہے۔ تو یہ مسئلہ مذہب شافعی میں بھی مردود و باطل ٹھہرا۔ جن بردارانِ احناف نے اس بارے میں قلاوہ حنفیت کا گردن سے نکال کر قلاوہ شافعیت و موجدان جدید کا پہنا تھا وہ بھی تار عنکبوت سے زیادہ ثابت نہیں ہوا، کسی نے خوب کہا ہے۔
؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ایسے لوگ حنفی رہے نہ شافعی، کیوں کہ کتب حنفیہ میں اس کی تردید بالوضاحت و بالصراحت موجود ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی رد المختار میں لکھا ہے۔
انہ لا یسن الاذان عند ادخال المیت فی قبرہ کما ھو المعتاد الان وقلہ صرح ابن حجر فی فتاواہ بانہ بدعة وقال من ظن انہ سنة قیاسًا علی تدبرہ المولود الحاقا بخاتمة الامر بابتدائِ یَتِہٖ فلم یصب اہ
’’یعنی میت کو قبر میں داخل کرنے کے وقت اذان مروج کہنا قطعاً ثابت نہیں، علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بدعت ہونے پر تصریح کی ہے اور فرمایا کہ جو شخص بچہ کی پیدائش پر قیاس کر کے اس کی سنیت کا گمان کرے وہ صائب نہیں۔ اس کا گمان غلط و نادرست ہے ۔‘‘
(ملاحظہ ہوصواحق الہیہ مطبع احمدی ص ۲۴۱)
بعض کتب میں ہے
من البدع التی شاعت فی بلاد الھند الاذان علی القبر بعد الدفن
’’یعنی ہندوستان میں جتنی بدعتیں مروج ہیں، ان میں سے بعد دفن میت کے قبر پر اذان کہنا بھی ہے۔‘‘ (تفہیم المسائل ص۱۱۶)
عمود بلخی توشیح شرح تنقیح میں فرماتے ہیں۔
الاذان علی القبور لیس بشئی
’’یعنی قبر پر اذان کہنا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔‘‘
الحاصل اس کے بدعت ہونے پر کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں۔
اذان علی القبر نہ شرعی معنی کہ رو سے مفید و مطلوب ہے۔ نہ لغوی معنی کی رو سے کیوں کہ اذان کا معنی شرع میں اعلان کرنا واسطے آنے نماز کے وقت پر ساتھ الفاظ مخصوص کے ہے۔ اور یہ معنی اذان علی القبر پر مفقود ہے۔ کمالا یخفی۔ اور معنی اذان کا لغت میں وانا نیدن اور خبر کردن کا ہے اور یہ معنی بھی یہاں موافق و راست نہیں آتا۔ کما لا یخفی علی الوجدان السلیم والرای المستقیم۔(فتاویٰ ستاریہ جلد سوم ص۴۵)