الحمد للہ.
اول:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال، پسینہ، آپکا جوٹھا وغیرہ آثار سے تبرک اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر جائز ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس بارے میں صحیح احادیث ثابت ہیں۔
اور یہ فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کیلئے نہیں ہے، چنانچہ آپ پر کسی کو قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کو دنیا و آخرت کیلئے باعث برکت و نفع بنایا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آثار سے برکت حاصل کرنے کے عمل کو جائز قرار دیا، چنانچہ یہ کام -معاذ اللہ- شرکیہ کاموں میں سے نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی شرعی اسباب اختیار کرنے میں شامل ہے، اور ویسے بھی جس شخصیت نے اسکی اجازت دی ہے اسی نے شرک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور شرک کی طرف لے جانے والے سب راستے بند کر دئیے، اسی لئے آپکے علاوہ کسی اور کے آثار سے تبرک بدعت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے طریقے کے منافی ہے، بالکل اسی طرح یہ غیر اللہ کے ساتھ شرکیہ تعلق کا بھی ذریعہ ہے۔
دوم:
حاکم نے "مستدرک "(5299) میں، اور طبرانی نے "الکبیر" میں، ابو یعلی نے اپنی مسند ابو یعلی (7183) میں ہشیم کی سند سے روایت کیا ہے کہ انہیں عبد الحمید بن جعفر نے انہوں نے اپنے والد سے بیان کیاکہ : "خالد بن ولید کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی، تو انہوں نے کہا: "اسے تلاش کرو!"، لیکن تلاش کے باوجود نہ ملی، پھر دوبارہ تلاش کی گئی تو وہ ٹوپی انہیں مل گئی، وہ بوسیدہ سی ٹوپی تھی، تو خالد نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار عمرے کے بعد اپنا سر منڈوایا، تو لوگ آپ کے بالوں کی طرف لپکے، لیکن میں آپکی پیشانی کے بال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، تو میں نے ان بالوں کو اس ٹوپی میں شامل کردیا، تو جس وقت بھی میں نے اس ٹوپی کے ہمراہ کسی جنگ میں شرکت کی ، اللہ کی طرف سے مجھے فتح ملی"
اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد حاکم نے سکوت اختیار کیا ہے، جبکہ ذہبی نے اسے منقطع قرار دیا ہے، اور یہی بات درست ہے، کیونکہ سند میں مذکور جعفر وہ جعفر بن عبد اللہ بن الحکم بن رافع ہے، اور یہ صغار صحابہ کرام سے روایت کرتا ہے، جیسے انس اور محمود بن لبید وغیرہ ، "التهذيب" (2/99)
جبکہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات بہت پہلے کی ہے، کہ آپ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پا گئے تھے، جیسے کہ "طبقات ابن سعد" (7/ 279) ، اور"أسد الغابة" (2/140) میں ہے، چنانچہ جعفر کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ خالد کے زمانے کو پا لے اور ان سے سماع بھی کرسکے، اسی لئے امام بخاری نے " التاريخ الكبير" (2/195) میں اسی جعفر کے حالات کے تحت لکھا: "جعفر نے انس کو دیکھا ہے"، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جعفر کبار اور متقدم الوفاۃ صحابہ کرام کو نہیں پاسکا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ بھی کیا، اور اسی لئے اس کے شروع میں کہا: "بیان کیا جاتا ہے" (اضافہ از مترجم: صیغہ مجہول کیساتھ) یہ جملہ عدم ثبوت اور ضعیف ہونے کا احساس دلاتا ہے، چنانچہ ابن کثیر کہتے ہیں:
"بیان کیا جاتا ہے کہ خالد کی ٹوپی یرموک کے موقع پر حالت جنگ میں گر گئی ، انہوں نے اسکی تلاش کیلئے خوب رغبت دلائی، تو اس عمل پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تو پھر خالد نے کہا: اس ٹوپی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال ہیں، اور جب تک کسی بھی جنگ میں وہ میرے ساتھ رہی مجھے اسکی وجہ سے اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہوئی" ماخوذ از "البداية والنهاية" (7/ 113)
اسی طرح: "مختصر استدراك الحافظ الذهبي على مستدرك الحاكم" از ابن ملقن ، پر محقق کا حاشیہ بھی دیکھیں:(4/1953-1954)
پھر اگر اس قصہ کو درست مان بھی لیں؛ تو آج اسکی عملی صورت باقی ہی نہیں ہے، کیونکہ تبرک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کے ساتھ خاص ہے، اور آج لوگوں کے پاس موجود اشیاء میں سے کسی بھی چیز کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم .