الحمد للہ.
اول:
بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنے كے حكم ميں سوال نمبر ( 20885 ) اور (26152 ) كے جوابات ميں تفصيل گزر چكى ہے اس ليے يہاں دوبارہ ذكر كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.
دوم:
سوال ميں جو حديث بيان كى گئى ہے اور اس كے علاوہ دوسرى مرفوع احاديث جن ميں بدعتى كا عمل قبول نہ ہونے كا ذكر كيا گيا ہے وہ يا تو ضعيف ہيں اور يا بھر منكر ان ميں كوئى حديث بھى صحيح نہيں ذيل ميں ہم اس كى تفصيل بيان كرتے ہيں:
پہلى حديث:
حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى بدعتى كا نہ تو روزہ قبول كرتا ہے اور نہ ہى نماز اور صدقہ اور نہ حج اور عمرہ اور نہ جہاد اور نہ توبہ اور فديہ وہ اسلام سے اس طرح نكل جاتا ہے جس طرح آٹے سے بال "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 49 ).
ابن ماجہ كہتے ہيں ہميں حديث بيان كى داود بن سليمان عسكرى نے اور وہ كہتے ہيں ہميں حديث بيان كى محمد بن على ابو ہاشم بن ابى خداش موصلى سے وہ محمد بن محصن سے حديث بيان كرتے ہيں اور وہ ابراہيم بن ابى عبلۃ سے وہ عبد اللہ بن ديلمى سے وہ حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے.
علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 1493 ) ميں اس حديث كے متعلق كہتے ہيں:
يہ حديث موضوع ہے، اس كى آفت يہ ابن محصن راوى ہيں جو كہ كذاب ہے، جيسا كہ ابن معين اور ابو حاتم كا كہنا ہے اور حافظ ابن حجر تقريب التھذيب ميں كہتے ہيں اسے انہوں نے جھوٹا كہا ہے، اور بوصيرى نے اس كے متعلق تساہل سے كام ليا ہے وہ كہتے ہيں:
" اس كى سند ضعيف ہے، اس ميں محمد بن محصن ہے اور سب اس كے ضعيف ہونے پر متفق ہيں.
ديكھيں: الزوائد ( 1 / 10 ).
ان كے تساہل كى وجہ يہ ہے كہ بعض اوقات راوى كے ضعيف ہونے پر اتفاق ہو سكتا ہے سكتا ہے ليكن وہ كذاب نہيں ہوتا، تو اس وقت بغير كسى سبب كے اتفاق ذكر كر دينا راوى كے واقع كے متعلق معتبر نہيں ہو گا، لہذا آپ غور كريں " انتہى
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 1493 ).
دوسرى حديث:
عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى بدعتى كے عمل كو قبول كرنے سے انكار كرتا ہے حتى كہ وہ بدعت ترك كر دے "
اسے ابن ابى حاتم نے الجرح و التعديل ( 9 / 439 ) اور ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 50 ) اور ابو الفضل المقرئ نے احاديث فى ذم الكلام واھلہ ( 3 / 111 ) ميں اور ابن ابى عاصم نے السنۃ حديث نمبر ( 32 ) ميں اور خطيب بغدادى نے تاريخ بغداد ( 13 / 185 ) ميں اور ابن الجوزى نے ان كے طريق سے العلل المتناھيۃ ( 1 / 144 ) ميں روايت كيا ہے.
ان سب نے بشر بن منصورالخياط عن ابى زيد عن المغيرۃ عن عبد اللہ بن عباس كے طريق سے روايت كى ہے.
ابن ابى حاتم اس كو روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں:
ابو زرعہ سے ان دونوں ـ يعنى ابو زيد اور ابو المغيرہ ـ كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے كہا: ميں ان دونوں كو نہيں جانتا، اور نہ ہى بشر بن منصور كو جانتا ہوں جس سے الاشج نے روايت كى ہے " انتہى
اور ابن الجوزى كہتے ہيں:
" يہ حديث رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں، اور اس ميں مجھول اشخاص پائے جاتے ہيں " انتہى
ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 1 / 145 ).
اور علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ منكر ہے، اور اس كى سند ضعيف اور مسلسل بالمجھولين ہے، ابو زرعہ كہتے ہيں: ميں نہ تو ابو زيد كو جانتا ہوں اور نہ ہى اس كے شيخ كو اور نہ بشر كو، اور امام ذہبى رحمہ اللہ ان كےاول ميں كہتے ہيں: يجہل اور آخر كے متعلق كہتے ہيں وہ نہيں جانتے كہ وہ دونوں كون ہيں " اور بوصيرى رحمہ اللہ نے " الزوائد " ( 1 / 11 ) ميں ان كى موافقت كى ہے " انتہى
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 1492 ).
سوم:
بعض لوگوں پر على بن ابى طالب سے وارد شدہ درج ذيل حديث كى بنا پر اشكال پيدا ہو سكتا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مدينہ ميں بدعت كرنے والے كے متعلق فرمان ہے:
" اللہ تعالى اس كى توبہ قبول نہيں كريگا اور نہ ہى اس سے فديہ قبول كريگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7300 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1370 ).
اسى طرح تابعين سے منقول ہے مثلا حسن بصرى كہتے ہيں:
" اللہ تعالى بدعتى كا نہ تو روزہ قبول كرتا ہے اور نہ ہى روزہ اور نہ حج اور عمرہ حتى كہ وہ بدعت كو ترك كر دے " انتہى
اسے آجرى نے الشريعۃ ( 64 ) ميں اور ابو شامہ نے الباعث على انكار البدع و الحوادث صفحہ ( 16 ) ميں روايت كيا ہے، اور اسى طرح امام اوزاعى سے بھى مروى ہے جيسا كہ ابن وضاح كى البدع و النھى عنھا ( 27 ) ميں درج ہے.
اور فضيل بن عياض رحمہ اللہ سے ان كا قول مروى ہے:
" بدعتى كا كوئى عمل اللہ كى جانب نہيں اٹھايا جاتا "
اسے لالكائى نے شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ ( 1 / 139 ) ميں نقل كيا ہے.
امام شاطبى رحمہ اللہ نے ان آثار كى شرح ميں دو احتمال ذكر كيے ہيں:
يا تو اس سے مراد يہ ہے كہ:
اس كا مطلقا كوئى بھى عمل قبول نہيں كيا جاتا، چاہے وہ كسى بھى طريقہ پر ہو سنت كے موافق يا مخالف.
يا اس سے مراد يہ ہے كہ:
اللہ تعالى اس بدعت كا خاص كر وہ عمل قبول نہيں كرتا جو بدعت ہے ليكن بدعت كے علاوہ باقى عمل قبول ہوتے ہيں.
رہا پہلا تو اس ميں تين وجوہ ممكن ہيں:
پہلى وجہ:
يہ اپنے ظاہر پر ہو كہ ہر بدعتى كا كوئى بھى عمل قبول نہيں ہوتا چاہے اس كى بدعت كيسى بھى ہو، اور وہ بدعت اس ميں داخل ہو يا نہ، دين ميں بدعات ايجاد كرنے والوں كے ليے يہ بہت شديد اور سخت ہے.
دوسرى وجہ:
اس كى اصل بدعت ہو اور باقى سارے اعمال اس كى فرع جيسا كہ جب خبر واحد پر عمل كرنے سے مطلقا انكار كر دے كيونكہ عام احكام كى تكليف تو اس پر مبنى ہے.
تيسرى وجہ:
بدعتى كو بعض تعبدى يا دوسرے امور ميں اس كى خاص بدعت كا اعتقاد اسے ايسى تاويل كى طرف لا سكتا ہے جس سے اس كا شريعت ميں اعتقاد ضعيف ہو جائے اس سے اس كے سب عمل باطل ہو جائينگے.
رہا دوسرا تو اس سے خاص كر ان اعمال كى عدم قبوليت مراد ہے جس ميں بدعت ہو، تو بھى ظاہر ہے اور اس پر ہى يہ حديث دلالت كرتى ہے:
" ہر وہ عمل جس پر ہمارا حكم اور امر نہيں وہ مردود ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 108 - 112 ).
ليكن اس مسئلہ ميں تحقيق وہى ہے جو ڈاكٹر ابراہيم الرحيلى نے اپنى كتاب " موقف اھل السنۃ من اھل الاھواء و البدع " ميں ذكر كى ہے وہ كہتے ہيں:
" جس پر ظاہرى نصوص اور سلف رحمہ اللہ كى كلام دلالت كرتى ہے كہ بدعتى كا اللہ تعالى عمل قبول نہيں كرتا، اس كو درج ذيل وجوہات پر محمول كيا جا سكتا ہے:
پہلى وجہ:
كلام ظاہر پر محمول ہو گى، اور مراد يہ ہے كہ بدعتى كا كوئى بھى عمل قبول نہيں ہوتا، چاہے وہ عمل بدعت ہو يا غير بدعت يہ كافر بدعتى كے حق ميں ہے غير كافر كے ليے نہيں.
دوسرى وجہ:
بدعت كا وہ عمل رد ہو گا جو خاص كر بدعت ہے، چاہے وہ خالصتا بدعت ہو يا پھر شرعى ہو اور اس ميں بدعت داخل ہوئى اور اسے خراب و فاسد كر ديا.
تيسرى وجہ:
بطور سزا عمل كا اجر ضائع ہو جاتا ہے، گويا كہ وہ قبول ہى نہيں ہوا.
چوتھى وجہ:
نصوص ترھيب اور بدعت سے نفرت اور دور رہنے پر محمول ہيں.
يہاں سلف كى كلام اور نصوص كى توجيہ پر محمول كرنے كا باعث وہ ہے جو ان نصوص كے معارض شرعى اصول سے ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمان شخص كا عمل اس وقت قابل قبول ہوتا ہے جب اس ميں دو شرطيں اخلاص اور متابعت يعنى نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا پائى جائيں، بغير ديكھے كہ صاحب عمل دوسرے اعمال ميں بدعت يا معصيت كا مرتكب ہوا ہے يا نہيں، كيونكہ اس كى قبول عمل پر كوئى تاثير نہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: موقف اھل السنۃ من اھل الاھواء والبدع ( 1 / 292 - 293 ).
يہاں مذكور تيسرى وجہ كو اسى بدعت پر محمول كرنا چاہيے جس كے متعلق شريعت سے ثابت ہو كہ اس پر عمل كرنے والے كے عمل ضائع ہو جاتے ہيں نہ كہ ہر بدعت ميں يہ توجيہ صحيح ہے.
اہل اور شارحين حديث نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" اللہ تعالى اس كى نہ تو توبہ قبول كرتا ہے اور نہ ہى فديہ "
سے بدعتى كے متعلق كيا مقصود ہے بيان كيا ہے:
لہذا قاضى كہتے ہيں: كہا گيا ہے كہ اس كا معنى يہ ہے: نہ تو اس كا فرض قبول كيا جائيگا اور نہ ہى نفلى عبادت قبول رضا ہو گى، اگرچہ وہ بطور جزا اور بدلہ قبول ہو گى، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ يہاں قبول تكفير ذنوب كے معنى ميں ہے"
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 9 / 141 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
اگر بدعتى كى بدعت مكفرہ كفر صريح نہ ہو تو اس كے پيچھے نماز ادا كرنى جائز ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى لوگوں كا ان كے اعمال كے مطابق حساب كريگا، لہذا جو كوئى بھى ذرہ برابر نيكى كريگا وہ اسے ديكھ لے گا، اور جو كوئى بھى ذرہ برابر برائى كريگا وہ بھى اسے ديكھ لےگا.
واللہ اعلم .