الحمد للہ.
يہ حديث ابن ماجہ ميں ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے"
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1782 ).
يہ حديث ضعيف ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں.
الاذكار ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يہ حديث ضعيف ہے، اسے ہم نے ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے مرفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور يہ دونوں طريق ضعيف ہيں. انتھى
اور حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى نے" تخريج احياء علوم الدين " ميں اس كى سند كو ضعيف كہا ہے.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يہ حديث غريب اور مضطرب الاسناد ہے.
ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 4 / 235 ).
اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ضعيف ابن ماجہ ميں ذكر كرنے كے بعد اسے موضوع كہا ہے.
اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 521 ) ميں ذكر كرنے كے بعد ضعيف جدا كہا ہے.
يہ حديث طبرانى نے عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى رات شب بيدارى كى اس كا دل اس دن مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مر جائيں گے "
يہ روايت ميں ضعيف ہے.
ھيثمى نے " مجمع الزوائد " ميں كہا ہے كہ:
اسے طبرانى نے " الاوسط" اور " كبير" ميں روايت كيا ہے، اس كى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے، جس پر ضعف غالب ہے، اور ابن مہدى نے اس كى تعريف كى ہے، ليكن اكثر نے اسے ضعيف قرار ديا ہے. واللہ اعلم.
اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 520 ) ميں ذكر كرنے كے بعد اسے موضوع كہا ہے.
اور امام نووى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: عيدين كى رات نفل و نوافل اور دوسرى عبادات كر كے شب بيدارى كرنا مستحب ہے، ہمارے اصحاب نے امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث سےاستدلال كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے عيدين كى رات شب بيدارى كى اس كا دل مردہ نہيں ہوگا، جس دن دل مر جائيں گے"
اور شافعى اور ابن ماجہ كى روايت ميں ہے:
" جس نے عيدين كى رات اللہ تعالى كے ليے اجروثواب كى نيت ركھتے ہوئے قيام كيا، اس كا دل مردہ نہيں ہو گا جب دل مر جائيں گے"
اسے انہوں نے ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے موقوفا روايت كيا ہے،اور ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى يہ موقوف اور مرفوع بيان كى گئى ہے جيسا كہ گزر چكا ہے، اور ان سب طرق كى اسانيد ضعيف ہيں. انتہى
اور شيخ الاسلام ابن تيميمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جن احاديث ميں عيدين كى رات كا ذكر ہے وہ نبى عليہ السلام كے ذمہ من گھڑت اور كذب ہيں. انتہى
اس كا يہ معنى نہيں كہ اس رات قيام مستحب نہيں، بلكہ ہر رات قيام اور نفل نوافل ادا كرنا مشروع ہيں، اسى ليے علماء كرام كا اتفاق ہے كہ عيد كى رات قيام كرنا مستحب ہے، جيسا كہ اسے " الموسوعۃ الفقھيۃ " ( 2 / 235 ) ميں منقول ہے، مقصود صرف يہ ہے كہ اس قيام كى فضيلت ميں وارد شدہ احاديث ضعيف ہيں.
واللہ اعلم .