الحمد للہ.
اول:
صحیح احادیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی امامت کروائی تھی، اس کے درج ذیل دلائل ہیں:
1- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۔۔۔ میں نے دیکھا کہ انبیائے کرام کی بڑی جماعت وہاں موجود ہے، موسی [علیہ السلام ]کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا گویا کہ وہ گٹھے ہوئے جسم اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں گو یا کہ وہ قبیلہ ازد شنوءہ کے ایک آدمی ہیں اور عیسی بن مریم [علیہما السلام]کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو لوگوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی [رضی اللہ عنہ ]ہیں اور ابراہیم [علیہ السلام] کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا لوگوں میں سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب [یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود]ہیں اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو میں نے ان کی امامت کروائی)
مسلم: (172)
2- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کر رہے تھے"
امام احمد ( 4 / 167 ) نے اسے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے، تاہم پہلی مسلم کی روایت اس کیلیے شاہد ہے۔
دوم:
علمائے کرام کا اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ یہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان کی طرف جانے سے پہلے تھی یا واپسی پر آپ نے نماز پڑھائی؟ ان دونوں میں سے پہلا موقف راجح ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عیاض رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیائے کرام کی بیت المقدس میں جماعت کروائی، اور پھر ان میں سے وہ سب آسمانوں پر چلے گئے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں پر دیکھا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آسمان سے واپسی پر نماز پڑھائی اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ بیت المقدس اتر آئے۔۔۔
تاہم زیادہ اسی بات کا امکان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیت المقدس میں آسمان پر جانے سے پہلے نماز پڑھائی"
" فتح الباری " ( 7 / 209 )
سوم:
ہر مسلمان کیلیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ برزخی زندگی میں دنیاوی زندگی کا طرزِ حیات لاگو نہیں ہو سکتا، اور اگر شہدا ءکی برزخی زندگی اللہ تعالی کے ہاں کامل ہے تو پھر انبیائے کرام کی زندگی کامل ترین ہوگی؛ اس لیے ایک مسلمان کو برزخی زندگی کے بارے میں ایمان رکھنا چاہیے اور چاہیے کہ اس کی کیفیت و حقیقت کے بارے میں کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے۔
اللہ تعالی نے شہدا ءکی زندگی کے بارے میں فرمایا:
( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [169] فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [170] يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ )
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو ، وہ تو زندہ ہیں جو اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں [169] جو کچھ اللہ کا ان پر فضل ہو رہا ہے اس سے وہ بہت خوش ہیں اور ان لوگوں سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ان کے پیچھے ہیں اور ابھی تک ان سے ملے نہیں، انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے [170] اللہ تعالی کا ان پر جو فضل اور انعام ہو رہا ہے اس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالی یقیناً مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا [آل عمران: 169- 171]
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام اپنی قبروں میں برزخی زندگی کی حالت میں نماز پڑھتے ہیں)
اسے ابو یعلی نے "مسند ابو یعلی":(3425) میں روایت کیا ہے اور کتاب کے محقق کے اسے صحیح کہا ہے۔
اسی طرح شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے " سلسلة الأحاديث الصحيحة " ( 621 ) میں اسے صحیح کہا ہے۔
اسی طرح عون المعبود : (3/261) میں ہے کہ:
"ابن حجر مکی کہتے ہیں: اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام قبروں میں برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور نمازیں پڑھتے اور عبادت گزاری کرتے ہیں، نیز وہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے کی حاجت نہیں رکھتے، اور یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی شک نہیں، بیہقی رحمہ اللہ نے اس بارے میں خصوصی ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔۔۔
نیز قرآن مجید میں شہدا ءکے بارے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ وہ برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے، ان کی زندگی ان کے جسموں کے ساتھ ہے، تو انبیائے کرام کیساتھ بالاولی ہوگی۔" انتہی
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات واضح رہے کہ اس حدیث میں جو زندگی انبیائے کرام کیلیے ثابت ہے یہ برزخی زندگی ہے، دنیاوی زندگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے برزخی زندگی کے بارے میں کیفیت اور دنیاوی زندگی سے تشبیہ دیئے بغیر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔
اس مسئلے کے بارے میں درج ذیل موقف رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور فرض ہے:
احادیث میں ذکر شدہ باتوں پر من و عن ایمان لانا چاہیے اور ان میں قیاس اور رائے کے ذریعے کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہیں کرنی چاہیے، جیسے کہ کچھ بدعتی لوگ ایسا کرتے ہیں، اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کچھ لوگ اس بات کا دعوی بھی کر بیٹھے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زندگی حقیقی زندگی ہے! آپ کھاتے ، پیتے اور اپنی بیویوں سے شب باشی بھی کرتے ہیں!! حالانکہ یہ برزخی زندگی ہے اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا"
" السلسلة الصحيحة " ( 2 / 120 )
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (26117) کا مطالعہ کریں۔
چہارم:
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس میں انبیائے کرام کی روحوں اور جسموں دونوں کیساتھ ملاقات ہوئی تھی؟ یا صرف روحوں کیساتھ ہوئی تھی جسموں کے ساتھ نہیں ہوئی؟ اس بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انبیائے کرام کے جسم اطہر کو آسمانوں میں دیکھا جانا الجھن کا باعث ہے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم مبارک تو زمین پر قبروں میں ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ: انبیائے کرام کی روحوں نے ان کے جسموں کی شکل دھار لی، یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ اس رات انبیائے کرام کے اجسام مبارک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و مقام عیاں کرنے کیلیے آپ سے ملاقات کی غرض سے لائے گئے"
" فتح الباری " ( 7 / 210 )
راجح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات انبیائے کرام کی روحوں کیساتھ ہوئی جنہوں نے جسموں کی صورت دھاری ہوئی تھی، سوائے عیسی علیہ السلام کے، کیونکہ انہیں روح اور بدن سمیت آسمانوں پر اٹھایا گیا ، لیکن ادریس علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہے تا ہم ان کے بارے میں بھی راجح یہی ہے کہ ان کا حکم بھی باقی انبیائے کرام والا ہی ہے عیسی علیہ السلام والا نہیں ہے۔
چنانچہ سب انبیائے کرام کے بدن قبروں میں ہیں اور ان کی روحیں آسمانوں میں ہیں، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ملاقات کیلیے اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام کی روحوں کو ان کے حقیقی جسموں کی شکل اپنانے کی طاقت دے دی تھی، اسی بات کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن رجب سمیت دیگر اہل علم نے راجح قرار دیا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات آسمانوں میں دیکھا، آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا پر ، یحیی اور عیسی علیہما السلام کو دوسرے آسمان پر ، یوسف علیہ السلام کو تیسرے آسمان پر ، ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر ، ہارون علیہ السلام کو پانچویں آسمان پر ، موسی علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر ، اور ابراہیم علیہ السلام کو ساتویں پر دیکھا ، موسی اور ابراہیم کے درمیان ترتیب الٹ بھی ہو سکتی ہے، تو یہ حقیقت میں انبیائے کرام کی روحوں کو ان کے جسموں کی صورت دی گئی تھی۔
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ : یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیائے کرام کے وہی جسم دیکھے جو قبروں میں دفن تھے؛ تو یہ بالکل غیر مناسب ہے۔"
" مجموع الفتاوى " ( 4 / 328 )
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنہیں بھی آسمانوں میں دیکھا وہ حقیقت میں ان انبیائے کرام کی روحیں تھیں، ما سوائے عیسی علیہ السلام کہ کیونکہ انہیں آسمانوں پر جسم سمیت اٹھا لیا گیا تھا" انتہی
" فتح الباری " ( 2 / 113 )
اسی موقف کو ابو الوفاء بن عقیل نے راجح قرار دیا ہے، جیسے کہ ان سے حافظ ابن حجر نے نقل کیا ہے، اور ظاہری طور پر یہ بھی لگتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے چند مشائخ کا رد صرف اس لیے کیا کہ انہوں نے دوسرے موقف کو اپنایا ہے، چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معراج کی رات انبیائے کرام کی حالت کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے کہ : کیا دیگر انبیائے کرام کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کیلیے ان کے جسموں سمیت وہاں لے جایا گیا؟ یا ان انبیائے کرام کی روحیں وہیں رہتی ہیں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات ہوئی تھی، اور ان کی روحوں کو جسموں کی شکل دے دی گئی تھی؟ جیسے کہ ابو الوفاء بن عقیل نے واضح لفظوں میں اس چیز کا ذکر کیا ہے، ہمارے کچھ مشائخ نے پہلے موقف [یعنی: انبیائے کرام کو ان کے جسموں سمیت وہاں لے جایا گیا]کو اختیار کیا ہے، ان کی دلیل صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں نے موسی علیہ السلام کو معراج کی رات دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے) تو اس سے معلوم ہوا کہ موسی علیہ السلام کو بھی اسی وقت ساتھ لے لیا گیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا۔
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: یہ کوئی لازمی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی روح کا زمین میں دفن جسم کیساتھ تعلق ہو، اس طرح انہیں نماز پڑھنے کی استطاعت حاصل ہو گئی، لیکن ان کی روح حقیقت میں آسمانوں پر ہی تھی"
" فتح الباری " ( 7 / 212 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ بدن چاہے موسی علیہ السلام کا ہو یا کسی اور کا کوئی بھی بدن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بلکہ یہ خصوصیت روح کی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ، پھر انہیں بیت المقدس میں دیکھا، پھر انہیں چھٹے آسمان پر دیکھا، تو یہ جگہ کی بار بار تبدیلی صرف موسی علیہ السلام کی روح کیلیے تھی آپ کے بدن کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات بالکل واضح ہے کہ انبیائے کرام کے بدن قبروں میں ہیں، سوائے عیسی اور ادریس علیہما السلام کے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا پھر انہیں چھٹے آسمان پر دیکھا حالانکہ دونوں کے درمیان فاصلہ بھی بہت تھوڑا تھا، تو یہ بدن کیلیے کبھی نہیں ہو سکتا[یہ صرف روح کیلیے ہی ممکن ہے]" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 5 / 526 - 527 )
شیخ صالح آل شیخ حفظہ اللہ کہتے ہیں:
میرے نزدیک صحیح ترین موقف یہ ہے کہ: یہ معاملہ صرف روح کے ساتھ خاص ہے جسموں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، ما سوائے عیسی علیہ السلام کے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تمام انبیائے کرام سے ملاقات ہوئی تو سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی تو اس کے بارے میں درج ذیل صورتیں ہی ہو سکتی ہیں:
- تمام انبیائے کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جسموں کے ساتھ نماز ادا کی، اس کیلیے تمام انبیائے کرام کے جسموں کو قبروں میں سے جمع کیا گیا، اور پھر دوبارہ ان کے جسموں کو قبروں میں لوٹا دیا گیا، اور روحیں آسمانوں پر چلی گئیں۔
- یا پھر یوں کہا جائے کہ یہ معاملہ صرف روحوں کیساتھ ہی تھا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات آسمان پر پہلے ہو چکی تھی۔
اب یہاں یہ بات سب کیلیے واضح ہے کہ : آسمان کی طرف زندہ اٹھائے جانے کا معاملہ صرف عیسی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھا کہ انہیں زندہ حالت میں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا، اب یہ کہنا کہ دیگر تمام انبیائے کرام کے اجساد مطہرہ کو بھی روحوں سمیت آسمانوں پر لے جایا گیا اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ بات بہت سے دلائل سے متصادم ہے، کیونکہ انبیائے کرام قیامت قائم ہونے تک اپنی قبروں میں رہیں گے۔
چنانچہ ان کے فوت ہو جانے کے بعد انہیں دفن کرنے کا یہ مطلب لینا کہ: انبیائے کرام کے جسد مطہر قبروں میں ہیں تو یہ اصل کے مطابق ہے۔
جبکہ دوسرے موقف والوں کا کہنا ہے کہ: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ ان کیلیے انبیائے کرام کو قبروں سے اٹھایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر آسمان پر ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کیلیے لازمی طور پر کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے، لیکن غور کرنے پر جو دلیل ملتی ہے وہ اس بات سے بالکل الٹ ہے۔
قصہ مختصر کہ: اس بارے میں متقدمین اور متاخرین اہل علم کے دو موقف ہیں۔
" شرح العقيدة الطحاوية " ( کیسٹ نمبر: 14 )
واللہ اعلم.
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:145405