الحمد للہ.
یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے، اسے کذاب لوگوں نے گھڑ کر مشہور کیا ہے، مقصد یہ تھا کہ اس سے علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت کرے۔
حالانکہ علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اس سے کہیں زیادہ اور مشہور و معروف ہیں ان کے فضائل کیلیے جھوٹی روایات بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ویسے اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ شیخ الاسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"کچھ جھوٹے اور کذاب لوگوں نے ایک من گھڑت روایت تیار کی کہ یہ آیت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی کہ انہوں نے نماز کے دوران اپنی انگوٹھی صدقہ کر دی ، یہ روایت تمام محدثین کے ہاں جھوٹی ہے، اور اس روایت کا جھوٹ کئی اعتبار سے عیاں ہوتا ہے، مثال کے طور پر:
· قرآنی آیت میں " الَّذِينَ" کا لفظ جمع ہے حالانکہ علی رضی اللہ عنہ ایک ہی ہیں۔
· اس آیت میں "واو" حالیہ نہیں ہے؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکتے تھے جنہوں نے رکوع کی حالت میں زکاۃ ادا کی، چنانچہ اس طرح تمام صحابہ اور مقرب لوگ اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
· تعریف اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی شخص واجب یا مستحب کام کرے، لیکن اس بات پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ دوران نماز زکاۃ ادا کرنا واجب ہے اور نہ ہی مستحب ، کیونکہ نماز خود ایک عبادت ہے اور نماز کے اپنے اعمال و ارکان ہیں ، اور نمازی ان میں مشغول ہوتا ہے۔
· اگر دورانِ نماز زکاۃ ادا کرنا اتنا ہی اچھا عمل ہوتا تو رکوع اور غیر رکوع کی حالت میں فرق نہ کیا جاتا ، بلکہ قیام اور جلسہ کی حالت میں زکاۃ ادا کرنا زیادہ آسان تھا۔
· نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں علی رضی اللہ عنہ پر زکاۃ ہی نہیں بنتی تھی۔
· اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی کوئی انگوٹھی ہی نہیں تھی اور نہ ہی انگوٹھیاں پہننا اس وقت رواج تھا، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسری کو خط لکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ وہ لوگ مہر کے بغیر کوئی بھی خط وصول نہیں کرتے ، اس لیے آپ چاندی کی انگوٹھی کی شکل میں مہر بنوا لیں اور اس میں "محمد رسول اللہ" کندہ کروائیں۔
· اسی طرح یتیموں کو زکاۃ میں انگوٹھی دینے کی بجائے کوئی اور چیز دینا بہتر ہے؛ کیونکہ اکثر فقہائے کرام کہتے ہیں کہ انگوٹھی زکاۃ کے طور پر دینا کفایت نہیں کریگا۔
· اس من گھڑت روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے سائل کو مانگنے پر دیا تھا، حالانکہ زکاۃ کی ادائیگی میں تعریف اس وقت کی جاتی ہے جب کسی کو مانگے بنا زکاۃ خود سے ہی دے دی جائے اور سائل کے سوال کا انتظار نہ کیا جائے۔
· اس آیت میں زکاۃ دینے کا تذکرہ کفار سے تعلقات کی ممانعت اور مؤمنین کے ساتھ دوستی کے سیاق میں آیا ہے "
دیکھیں: "منهاج السنة النبوية" (2/30-32)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر میں بیان کیا ہے اور اس پر ضعیف ہونے کا حکم بھی لگایا ہے؛ کیونکہ اس کی سند میں راوی ضعیف ہیں بلکہ کچھ کے بارے میں تو علم ہی نہیں ہے کہ وہ کون ہیں؟۔۔۔ نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ: کسی بھی اہل علم نے رکوع کی حالت میں صدقہ کرنے کی فضیلت ذکر نہیں کی" انتہی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنہ میں ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرمانِ باری تعالی : (وَهُمْ رَاكِعُونَ) کا مطلب یہ ہے کہ اور وہ اللہ کیلیے خشوع و خضوع کرنے والے ہوتے ہیں ؛ کیونکہ رکوع و سجود سے اللہ تعالی کے سامنے کمال عاجزی اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے، چنانچہ مؤمن جب بھی صدقہ کرے تو وہ اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری کی حالت میں ہوتا ہے تکبر ، ریاکاری، شہرت پسندی، اور احسان جتلانے والا نہیں ہوتا، اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق دے" انتہی.