سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا ہمارے اعمال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں؟

  • 26471
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-10
  • مشاہدات : 34

سوال

کیا ہمارے اعمال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں؟ اور کیا اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت ہے؟

الحمد للہ.

یہ چیز ثابت ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے پڑھا جانے والا درود آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتا ہے اور آپ کو پیش کیا جاتا ہے۔

جیسے کہ اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تمہارے سب دنوں میں سے افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی میں انہیں فوت کیا گیا اور اسی دن میں صور پھونکا جائے گا اور اسی دن میں بیہوشی طاری ہو گی، چنانچہ تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو؛ کیونکہ آپ کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے) اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ آپ کی تو ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو حرام کر دیا ہے) اس حدیث کو ابو داودؒ : (1047) اور نسائیؒ: (1374) نے روایت کیا ہے جبکہ اسے البانی رحمہ اللہ نے "إرواء الغليل" (1 / 34) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (زمین پر اللہ تعالی کے سیاح فرشتے ہیں جو مجھ تک میری امت کی جانب سے سلام پہنچاتے ہیں۔) اس حدیث کو نسائی ؒ : (1282) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (6 / 842) میں صحیح کہا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی اور ایسا عمل نہیں ہے جس کے بارے میں کتاب و سنت بتلاتے ہوں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

تاہم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کو بزارؒ نے [کمزوری کا اشارہ کرتے ہوئے] کچھ اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ امت کے تمام اعمال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، چنانچہ بزار رحمہ اللہ مسند البزار (5 / 308) میں کہتے ہیں:
"ہمیں یوسف بن موسی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبد المجید بن عبد العزیز بن ابو رواد نے بیان کی، انہوں نے سفیان سے ، انہوں نے عبد اللہ بن سائب سے، انہوں نے راذان سے اور انہوں نے

عبد اللہ بن مسعود سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (زمین پر اللہ تعالی کے سیاح فرشتے ہیں جو مجھ تک میری امت کی جانب سے سلام پہنچاتے ہیں۔) مزید یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے، تم جو بھی بات پوچھو گے تمہیں اس کا جواب دیا جائے گا، پھر میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے؛ میرے سامنے تمہارے اعمال پیش کیے جائیں گے، اگر اچھے کام دیکھوں گا تو اس پر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور جب بھی کوئی برا کام دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ سے بخشش طلب کروں گا۔) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے آخری حصے کو ہم صرف اسی سند سے ہی جانتے ہیں۔" ختم شد

علامہ البانیؒ نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ لکھتے ہوئے بتلایا کہ اس حدیث کو متعدد راویوں نے اعمال پیش کیے جانے کے متعلق آخری اضافے کے بغیر روایت کیا ہے، جبکہ اضافی حصے کو صرف عبد المجید بن عبد العزیز بن ابو رواد ہی بیان کرتا ہے، اور اہل علم نے اس راوی کے حافظے کے بارے میں قدغن لگائی ہے، اس لیے محدثین کے اصول کے مطابق اس راوی کی بیان کردہ اضافی بات شاذ اور مسترد ہو گی، چنانچہ البانیؒ کہتے ہیں:
"سفیان رحمہ اللہ سے بیان کرنے والے ثقہ راویوں کی ایک جماعت اس حدیث کو آخری اضافے کے بغیر بیان کرتی ہے، پھر اعمش رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد بھی بغیر اضافے کے بیان کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافی جملہ شاذ ہے اور یہ اضافہ عبد المجید بن عبد العزیز کی جانب سے ہے؛ کیونکہ اس راوی کا حافظہ قدرے کمزور تھا، اگرچہ یہ راوی صحیح مسلم کا راوی ہے، تو محدثین کی ایک جماعت نے اسے ثقہ قرار دیا جبکہ دیگر نے اسے ضعیف کہا ہے، کچھ نے اس کو ضعیف کہنے کی وجہ بھی ذکر کی ہے چنانچہ:

خلیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبدالمجید ثقہ تو ہے لیکن متعدد احادیث میں اس نے غلطیاں کی ہیں۔
نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبد المجید قوی تو نہیں ، تاہم اس کی حدیث لکھ لی جائے۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبد المجید نے امام مالک سے کچھ روایات بیان کیں تو ان میں غلطی کھائی۔
ابن حبان رحمہ اللہ " المجروحين " (2 / 152) میں کہتے ہیں: شدید نوعیت کا منکر الحدیث ہے، انہوں نے احادیث میں قلب کیا، مشہور اہل علم سے منکر قسم کی روایات بیان کرتا ہے، اس لیے یہ راوی متروک ہونے کا مستحق ہے۔
میں[البانیؒ] کہتا ہوں کہ : اسی لیے حافظ ابن حجر نے اس راوی کے بارے میں تقریب التہذیب میں کہا کہ : صدوق درجے کا راوی ہے اور غلطیاں کرتا ہے۔

مندرجہ بالا باتیں جب آپ کے علم میں آ گئیں تو اب حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے " المجمع " (6 / 24) میں اس حدیث کے بارے میں جو کہا کہ: "اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں" اس جملے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی سند میں کوئی متکلم فیہ راوی نہیں ہے! اور اسی وجہ سے سیوطی رحمہ اللہ کو بھی دھوکا لگا اور انہوں نے بھی اپنی کتاب: " الخصائص الكبرى " (2 / 281) میں کہہ دیا کہ : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ : حافظ عراقی رحمہ اللہ جو کہ ہیثمی رحمہ اللہ کے بھی استاد ہیں انہوں نے مسند البزار کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے زیادہ محتاط الفاظ استعمال کیے ہیں، چنانچہ " تخريج الإحياء " (4 / 128) میں لکھتے ہیں: اس حدیث کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں تاہم عبد المجید بن ابو رواد اگرچہ مسلم کا راوی ہے لیکن ابن معین اور نسائی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے لیکن دیگر اہل علم نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اسی " طرح التثريب في شرح التقريب " (3 / 297): میں انہوں نے یا ان کے بیٹے نے جو کہا ہے کہ: "اس کی سند جیّد ہے" تو یہ میرے ہاں جید نہیں ہے، یہ سند عبد المجید کی وجہ سے جید ہو بھی نہیں سکتی؛ کیونکہ آپ پہلے عبدالمجید کے بارے میں پڑھ آئیں ہیں کہ انہوں نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے، اس لیے یہی مخالفت اس حدیث کی علت ہے۔ مجھے اس سے قبل کوئی ایسا محدث نظر نہیں آیا جنہوں نے اس مخفی علت کی جانب اشارہ کیا ہو، ہاں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اس اقتباس میں اشارہ موجود ہو سکتا ہے جو میں نے ان کی کتاب "البدایہ" سے نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم

البتہ بکر بن عبد اللہ مزنی سے یہ روایت صحیح سند کے ساتھ مرسل ثابت ہے۔۔۔

تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ: حدیث کی تمام سندیں ضعیف ہیں، اور ان تمام سندوں میں سے بہترین سند بکر بن عبد اللہ مزنی کی ہے جو کہ مرسل ہے! اور مرسل روایت بھی محدثین کے ہاں ضعیف کی اقسام میں شامل ہے۔" ختم شد
"سلسلة الأحاديث الضعيفة" (2 / 404 – 406)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ طارق عوض اللہ  رحمہ اللہ کی کتاب: "الإرشادات في تقوية الحديث بالشواهد والمتابعات"(365-368) کا مطالعہ کریں۔

مزید یہاں اس بات کا بھی اضافہ کریں کہ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جیسے متعدد صحابہ کرام سے ثابت ہونے والی صحیح ترین حدیث سے متصادم ہے، وہ روایت کچھ اس طرح ہے کہ

ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطاب فرمایا اور اپنے خطاب میں کہا: (لوگو! تمہیں اللہ کے پاس ننگے پاؤں، برہنہ جسم اور بغیر ختنے کے جمع کیا جائے گا، آپ نے آیت  كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ   ترجمہ: پہلی تخلیق کی طرح ہم اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے ، ہمارے ذمہ وعدہ ہے ، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے) کی تلاوت فرمائی اور پھر کہا: (یقیناً تمام مخلوقات میں سے سب سے پہلے سیدنا ابراہیم کو قیامت کے دن لباس پہنایا جائے گا، اور ہاں میری امت کے کچھ لوگوں  بلا کر انہیں بائیں طرف جانے والوں کی جگہ لے جایا جائے گا ۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں ؟ مجھ سے کہا جائے گا ، آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد شریعت میں نت نئی باتیں شامل کر لیں تھیں ۔ تو میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا:   وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ   ترجمہ: میں ان کے حال کا گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر صرف تو ہی ان پر نگراں ہے، اور تو ہی ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ پھر مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کے جانے کے بعد یہ لوگ دین سے بیزار رہے تھے۔)" اس حدیث کو امام بخاری: (4625) اور مسلم : (2860)نے روایت کیا ہے۔

واللہ اعلم

تبصرے