الحمد للہ.
ایک مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اندازہ اس کے ایمان کی مضبوطی سے کیا جا سکتا ہے، چنانچہ مسلمان کا ایمان مضبوط ہو تو اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی اتنی ہی گہری ہو جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی ہے، اور شریعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت واجب اور فرض قرار دی ہے۔
چنانچہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے ہاں اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں بن جاتا) بخاری: (15) مسلم: (44)
درج ذیل امور کی معرفت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل ہو سکتی ہے:
اول:
اس بات کا جاننا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اللہ تعالی نے لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانے کیلیے تمام جہانوں سے آپ کو پسند فرمایا اور چنا، اور اللہ تعالی نے آپ کو اس لیے اختیار فرمایا کہ اللہ تعالی کے ہاں آپ محبوب اور پسندیدہ ترین شخصیت ہیں، اگر اللہ تعالی آپ سے راضی نہ ہوتا تو آپ کو پسندیدہ اور چنیدہ نہ بناتا، اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اس شخصیت سے محبت کریں جس سے اللہ تعالی محبت فرماتا ہے، ہم بھی اسے پسندیدہ قرار دیں جسے اللہ تعالی نے اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلیل اللہ ہیں، اور خلیل کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے جو کہ محبت کے درجات میں سے آخری درجہ ہے۔
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ دن قبل فرماتے ہوئے سنا: (میں اللہ تعالی کے سامنے اظہار براءت کرتا ہوں کہ میرا تم میں سے کوئی خلیل ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے جیسے ابراہیم کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں کسی امتی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا)" مسلم: (532)
دوم:
ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ جانیں اور اپنے ذہنوں میں نقش کریں، اور یہ بھی عقیدہ رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری بشریت میں سب سے افضل ہیں۔
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں روزِ قیامت اولاد آدم کا سربراہ ہوں، قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی، میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا، میری شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی) مسلم: (2278)
سوم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک دین پہنچانے کیلیے بہت سی تکالیف اور مصیبتیں جھیلیں اور الحمد للہ ہم تک دین پہنچ گیا، اس لیے اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچائیں گئیں، آپ کو مارا گیا، برا بھلا کہا گیا، آپ کے قریبی رشتہ داروں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی، آپ کو دیوانہ ، جھوٹا اور جادو گر کہا گیا، آپ نے دین کو محفوظ کرنے کیلیے لوگوں سے مقابلہ کیا، صرف اس لیے کہ ہم تک دین پہنچ جائے، لوگوں نے آپ پر دست درازی کی اور آپ کو اپنے گھر بار سے بے دخل کر دیا اور آپ کے خلاف لشکر کشی بھی کی۔
چہارم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے مال اور اولاد سے بڑھ کر کرتے تھے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اپنی جانوں سے بھی زیادہ تھی، ذیل میں کچھ عملی نمونے ذکر کرتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حجام سے اپنی حجامت بنوا رہے تھے اور صحابہ کرام آپ کے ارد گرد جمع تھے، ان کی تمنا یہ تھی کہ کوئی بھی بال گرے تو ان کے ہاتھوں میں گرے" مسلم: (2325)
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ : "جب احد کے دن [ابتدائی طور پر ]لوگ شکست خوردہ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو گئے تو اس وقت ابو طلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور اپنی چمڑے کی ڈھال سے آپ کا دفاع کر رہے تھے، ابو طلحہ نہایت کھینچ کر تیر مارنے والے تیر انداز تھے، اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑیں، اگر کوئی شخص اپنے ترکش میں تیروں کے ساتھ وہاں سے گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: اپنے تیر ابو طلحہ کے سامنے پھیلا دو، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف دیکھنے لگے، تو ابو طلحہ کہنے لگے: اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ دشمن کی جانب مت جھانکیں ،کہیں دشمن کا کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے، میرا سینہ آپ کیلیے حاضر ہے۔۔۔" بخاری: ( 3600 ) مسلم : ( 1811 )
پنجم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی یا فعلی سنت پر عمل کریں، حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آپ کی پوری زندگی کیلیے مشعلِ راہ ہونی چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سب کی باتوں پر ترجیح دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سب کے حکم پر مقدم سمجھیں، آپ کےصحابہ کرام، تابعین عظام، اور پھر آج تک ان کے منہج پر چلنے والے لوگوں کے عقیدے یعنی اہل سنت وا لجماعت کے عقیدے کو اپنائیں، بدعتی اور رافضیوں کے عقیدے سے بچیں؛ کیونکہ ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیظ و غضب پایا جاتا ہے، وہ اپنے ائمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے اور انہیں ہمارے نزدیک ہماری اولاد، والدین، اہل خانہ اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:2431