الحمد للہ.
سوال ميں مذكور حادثہ كے متعلق درج ذيل نقاط ميں كلام كى جائيگى:
اول:
اس حديث كا حكم:
اس حديث كو ابو داود نے حديث نمبر ( 4361 ) ميں روايت كيا ہے، اور اسى طريق سے دار قطنى ( 3 / 112 ) نے بھى اور دوسرے طريق سے بھى مروى ہے.
اور امام نسائى نے سنن المجتبى نسائى حديث نمبر ( 4070 ) اور السنن الكبرى ( 2 / 304 ) اور ابن ابى عاصم نے الديات ميں حديث نمبر ( 249 ) اور طبرانى نے معجم الكبير ( 11 / 351 ) اور امام حاكم نے مستدر ك الحاكم ( 4 / 394 ) اور بيھقى نے سنن الكبرى ( 7 / 60 ) ميں روايت كى ہے، سب نے عثمان الشحام عن عكرمۃ عن ابن عباس كے طريق سے روايت كى ہے، ليكن روايات كے الفاظ مختلف ہيں كہيں قصہ تفصيلى ہے اور كہيں مختصر.
يہ سند حسن ہے، اور اس كے روات ثقات ہيں، اسى ليے ابو داود اور نسائى نے اس حديث كو روايت كرنا قبول كيا ہے، اور اس پر سكوت اختيار كيا ہے، اور امام احمد نے بھى، اور مجد ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام احمد نے اس سے اپنے بيٹے عبد اللہ كى روايت ميں اس سے حجت پكڑى ہے " انتہى
ديكھيں: نيل الاوطار ( 7 / 208 ).
اور امام حاكم كہتے ہيں: صحيح اور مسلم كى شرط پر ہے ليكن انہوں نے اسے روايت نہيں كيا، اور امام ذہبى نے اپنى تلخيص ميں اور ابن حجر نے بلوغ المرام ( 363 ) ميں اسے صحيح كہا ہے، اور كہا ہے اس كے روات ثقات ہے.
اور شيخ البانى رحمہ اللہ نے اس كى سند صحيح اور مسلم كى شرط پر قرار دى ہے.
ديكھيں: ارواء الغليل ( 5 / 91 ). انتہى.
اس كى شاہد وہ روايت ہے جو شعبى سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ على رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا:
" ايك يہودى عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور آپ پر سب و شتم كرتى تھى، تو ايك شخص نے اس كا گلا گھونٹ ديا حتى كہ وہ مر گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا خون باطل قرار ديا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4362 ) اس طريق سے ہى بيہقى نے سنن الكبرى ( 7 / 60 ) ميں اور ضياء المقدسى نے المختارۃ ( 2 / 169 ) ميں روايت كى ہے.
شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كى سند صحيح اور شخين كى شرط پر ہے، ليكن انقطاع كى وجہ سے علامہ البانى نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
اقرب يہ ہے كہ اس پر مرسل كا حكم لگايا جائے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور دارقطنى علل ميں كہتے ہيں: شعبى نے على رضى اللہ تعالى عنہ سے ايك حرف كے علاوہ كچھ نہيں سنا، جو دوسرے نے نہيں سنا "
گويا كہ انہوں نے اس سے وہ روايت مراد لى ہے جو امام بخارىنے ان سے رجم والى روايت بيان كى ہے جو على رضى اللہ تعالى عنہ سے ہے جب انہوں نے ايك عورت كو رجم كيا تو كہنے لگے: ميں نے اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ پر رجم كيا ہے " ابن حجر كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: تھذيب التھذيب ( 5 / 68 ).
ليكن اكثر اہل علم كے ہاں شعبى رحمہ اللہ كى مراسيل قبول ہيں، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى " الصارم المسلول " ميں كہتے ہيں:
" يہ حديث جيد ہے؛ كيونكہ شعبى نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا ہے، اور ان سے شراحہ الھمدانيۃ والى حديث روايت كى ہے، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں شعبى كى عمر بيس برس كے قريب تھى، اور وہ كوفى ہيں، ان كى لقاء ثابت ہے، تو حديث متصل ہو گى، پھر اگر اس ميں ارسال بھى ہو تو بالاتفاق حجت ہے، كيونكہ شعبى كا على سے سماع بعيد ہے كيونكہ اہل علم كے ہاں شعبى صحيح المراسيل ہے، وہ اس كى صحيح مراسيل ہى جانتے ہيں، پھر وہ سب لوگوں ميں على رضى اللہ تعالى عنہ كى احاديث كو زيادہ جاننے والا ہے، اور وہ اس كے ثقہ اصحاب كو زيادہ جانتا ہے انتہى.
ديكھيں: الصارم المسلول ( 65 ).
اور اس قصہ كى ايك اور روايت بھى شاہد ہے جو ابن سعد كى روايت الطبقات الكبرى ( 4 / 120 ) ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ہميں قبيصہ بن عقبہ نے خبر دى، وہ كہتے ہيں ہميں يونس بن ابى اسحاق نے ابو اسحاق سے حديث بيان كى، وہ عبد اللہ بن معقل سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں:
" ابن ام مكتوم مدينہ ميں ايك انصارى كى پھوپھى جو يہودى تھى كے پاس ٹھرے، وہ ان كے ساتھ نرمى برتتى اور بڑى رفيق تھى، ليكن اللہ اور اس كے رسول كے متعلق انہيں اذيت ديتى، تو انہوں نے اسے پكڑ كر مارا اور قتل كر ديا، اس كا معاملہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا تو ابن ام مكتوم كہنے لگے:
اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم اگرچہ وہ ميرے ساتھ بڑى نرم دل تھى، ليكن اس نے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بڑى اذيت دى تو ميں نے اسے مارا اور قتل كر ديا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، ميں نے اس كا خون باطل كر ديا "
اس سند كے راوى ثقہ ہيں.
ان سب مجموعى روايات سے حاصل يہ ہوا كہ: اصل ميں يہ قصہ سنت نبويہ ميں ثابت ہے.
ليكن كيا يہ ايك واقعہ ہے يا كئى ايك واقعات ہيں ؟
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ ايك واقعہ ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ اسى قول كى طرف مائل ہيں ان كا كہنا ہے:
" اس پر ـ يعنى اس حادثہ كے ايك ہونے پر ـ امام احمد كى كلام بھى دلالت كرتى ہے؛ كيونكہ عبد كى روايت ميں ان سے كہا گيا:
جب ذمى آدمى سب و شتم كرے تو اسے قتل كرنے ميں احاديث وارد ہيں ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، ان احاديث ميں اس نابينا والى حديث بھى شامل ہے جس نے عورت كو قتل كيا تھا، وہ كہتے ہيں اس نے سنا كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سب و شتم كر رہى ہے، پھر عبد اللہ نے ان سے دونوں حديثيں روايت كى ہيں.
اور اس كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ: اس طرح كے دو قصے دونوں نابينوں كے ساتھ پيش آنا ہر ايك كے ساتھ عورت اچھا سلوك كرتى تھى ليكن اس كے ساتھ وہ بار بار سب و شتم كا بھى شكار تھى، اور دونوں نابينوں نے اكيلے ہى عورت كو قتل كيا، اور دونوں واقع ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو قسم دى، يہ عادتا بعيد ہے "
الصارم المسلول ( 72 - 73 ) اختصار كے ساتھ.
اور روايات ميں اس يہودى كو قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف ميں جو اشكال ہے كہ آيا اسے گھلا گھونٹ كر قتل كيا گيا يا كہ تلوار گھونپ كر ؟ يہ اشكال باقى رہتا ہے.
ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اس ميں دو احتمال ذكر كيے ہيں:
احتمال ہے كہ ابن ام مكتوم نے پہلے گلا گھونٹا اور پھر تلوار گھونپ دى.
اور دوسرا احتمال يہ ہے كہ: كسى ايك روايت ميں غلطى كا وجود ہے.
ديكھيں: الصارم المسلول ( 72 ).
دوم:
روايت ميں اس كى دليل نہيں ہے كہ لونڈى كے پيٹ ميں بچہ تھا، اور جو كوئى بھى سياق و سباق سے ايسا سمجھتا ہے اس نے غلطى كى ہے، بعض روايات كے الفاظ ميں: " تو اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گر گيا اور وہاں وہ خون سے لت پت ہو گيا "
يہ كسى بھى طرح اس پر دلالت نہيں كرتا؛ بلكہ ظاہر يہ ہوتا ہے كہ وہ اس كے دو بچوں ميں سے ايك تھا جن كے اوصاف بھى نابينے نے بيان كرتے ہوئے كہا:
" دو موتيوں كى طرح "
وہ بچہ شفقت كے ساتھ اپنى ماں كے پاس آيا اور خون ميں لت پت ہو گيا، اس كى دليل يہ ہے كہ طبرانى كى ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" تو اس كے دونوں بچے اس كى ٹانگوں كے پاس خون ميں لت پت ہو گئے "
يعنى يا تثنيہ كے ساتھ دو بچوں كا ذكر ہے، اور بيہقى كى روايت ميں بھى ہے:
" تو اس كے دونوں بچے اس كى ٹانگوں كے پاس خون ميں لت پت ہوگئے "
اور " سوالات الآجرى ابا داود السجستانى " صفحہ ( 201 ) ميں بھى درج ہے جو اس پر دلالت كرتا ہے:
ابو داود كہتے ہيں: ميں مصعب الزبيرى كو سنا وہ كہہ رہے تھے:
عبد اللہ بن يزيد الخطمى صحابى نہيں، وہ كہتے ہيں: يہ وہى ہے جس كى ماں كو نابينے نے قتل كيا تھا، اور يہ وہى بچہ ہے جو اس كى ٹانگوں كے درميان گرا تھا، جس عورت نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كيا تھا. انتہى
تو پھر كوئى نوزائدہ بچہ مقتول نہ تھا، اور پھر يہ ممكن ہى نہيں كہ شريعت ايسا عمل اور قانون لائے كہ بچہ ماں كى سزا كا متحمل ٹھرے، اور پھر اللہ تعالى كا تو فرمان يہ ہے:
اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ اور گناہ نہيں اٹھائيگا .
حديث اور روايات كےالفاظ مختلف آنے اور بعض اوقات عكرمہ سے مرسل روايت جيسا كہ ابو عبيد القاسم بن سلام نے " الاموال حديث نمبر ( 416 ) ميں بيان كى ہے، اور حفاظ نے عثمان الشحام كى روايت ميں مناكير كى موجودگى كى بنا پر نقد كيا ہے، جيسا كہ يحيى القطان كہتے ہيں: كبھى معروف اور كبھى منكر بيان كرتا ہے، اور ميرے پاس وہ نہيں.
اور ابو احمد الحاكم كہتے ہيں: ان كے ہاں قوى نہيں، اور دار قطنى كہتے ہيں: بصرى اور معتبر ہے، يہ سب قصہ ميں مذكور تفاصيل ميں شك اور توقف واجب كرتا ہے، ليكن يہ اس درجہ تك نہيں پہنچتا كہ اصل روايت ہى رد كر دى جائے اور حادثہ كے وقوع كى نفى كر دى جائے، اس كے علاوہ بھى اس كے كئى شواہد آئے ہيں جن كا اوپر بيان ہو چكا ہے، اور متقدمين اور متاخرين اہل علم نے اسے قبول كيا ہے.
سوم:
اس قصہ ميں اہل كتاب كے ساتھ مسلمانوں كےعدل و انصاف كى دليل پائى جاتى ہے جو ان كےساتھ كيا جاتا تھا، جسے شريعت مطہرہ نے سب جہانوں كے ليے بطور رحمت بنا كر لائى ہے.
چنانچہ معاہدہ كرنے والے يہوديوں كےحقوق محفوظ ہيں اور كوئى بھى شخص انہيں اذيت و تكليف نہيں دے سكتا، اسى ليے جب لوگوں نے ايك يہودى عورت كو قتل پايا تو لوگ ہڑبڑا گئے اور اسكا معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك پہنچايا جنہوں نے ان يہوديوں كو معاہدہ اور امان دے ركھى تھى، اور ان سے جزيہ نہيں ليتے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم شديد غضبناك ہوئے اور مسلمانوں كو اللہ كا واسطہ اور قسم دے پوچھا كہ وہ ايسا كرنے والے كو ظاہر كريں، تا كہ وہ اس كى سزا كے متعلق ديكھيں اور اس كے معاملہ ميں فيصلہ كريں.
ليكن جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ معلوم ہوا كہ اس نے كئى ايك بار معاہدہ توڑا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہيں كر كے اذيت پہنچائى ہے تو وہ اپنے تمام حقوق سے محروم كر دى گئى، اور بطور حد قتل كى مستحق ٹھرى جو شريعت مطہرہ ہر اس شخص پر لاگو كرتى ہے جو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرے، چاہے مسلمان ہو يا ذى يا معاہدہ والا، كيونكہ انبياء كے مقام و مرتبہ كے ساتھ توہين كرنا اللہ كے ساتھ كفر ہے، اور ہر حرمت اور عہد و پيمان اور حق كو توڑنا، اور عظيم خيانت ہے جو سخت سے سخت سزا كى موجب ٹھرتى ہے.
ديكھيں: احكام اھل الذمۃ ( 3 / 1398 ).
اور رہا يہ مسئلہ كہ: مرتد كى حد لاگو كرنا حكمران يا اس كے نائب سے ساتھ مخصوص ہے، اس اشكال كو شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے ذكر كر تے ہوئے كہا ہے:
" اور باقى يہ رہ جاتا ہے كہ: حدود كا نفاذ امام يعنى حكمران يا اس كے نائب كے علاوہ كوئى نہيں كر سكتا ؟
اس كا جواب كئى ايك وجوہ سے ہے:
پہلى وجہ:
مالك كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے غلام پر حد لاگو كرے اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" تم اپنے غلاموں پر حدود كا نفاذ كرو "
مسند احمد حديث نمبر ( 736 ) شيخ ارناؤوط نے اسے حسن قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ اس طرف مائل ہيں كہ يہ جملہ على رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام ميں سے ہے.
ديكھيں: ارواء الغليل ( 2325 ).
اور يہ فرمان:
" جب تم ميں سے كسى ايك كى لونڈى زنا كرے تو وہ اسے حد لگائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4470 ) يہ صحيحين ميں ان الفاظ كے ساتھ ہے " تو وہ اسے كوڑوں كى حد لگائے "
فقھاء حديث كے ہاں كسى اختلاف كا مجھے علم نہيں كہ اسے حد لگانے كا حق حاصل ہے، مثلا زنا اور قذف و بہتان اور شراب نوشى كى حد، اور مسلمانوں كے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ وہ اسے تعزير لگائے، اس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں كہ آيا اسے قتل كرنے يا ہاتھ كاٹنے كا حق حاصل ہے، مثلا مرتد ہونے والےكو قتل كرنا، يا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنے اور توہيں كرنے والے كو قتل كرنا، اور چورى كرنے پر ہاتھ كاٹنا ؟
اس ميں امام احمد سے دو روايتيں ہيں:
پہلى روايت: جائز ہے، اور يہ امام شافعى سے بھى بيان كردہ ہے.
اور دوسرى روايت يہ ہے: جائز نہيں، اور اصحاب شافعى سے دو ميں سے ايك وجہ اور امام مالك كا بھى يہىقول ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح ثابت ہے كہ انہوں نے اپنے غلام كا چورى كى بنا پر ہاتھ كاٹا تھا، اور حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا نے جادو كا اعتراف كرنے والى اپنى ايك لونڈى كو قتل كيا تھا، اور يہ ابن عمر كى رائے كى بنا پر ہوا؛ تو اس طرح يہ حديث اس كے ليے دليل ہوئى جو مالك كے ليے غلام پر حد لاگو كرنے كو جائز قرار ديتے ہيں.
دوسرى وجہ:
اس ميں زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ امام كے معاملات ميں دخل اندازى ہے، اور امام كو حق حاصل ہے كہ جس نے اس كے بغير كسى واجب ميں حد لاگو كى اسے معاف كر دے.
تيسرى وجہ:
اگرچہ يہ حد ہے، اور وہ حربى كو قتل كرنا بھى ہے؛ تو يہ اس كے مرتبہ ميں ہوا كہ اس حربى كو قتل كرنا جس كو قتل كرنا حتمى تھا، اور يہ ہر ايك كو قتل كرنا جائز ہے ...
چوتھى وجہ:
اس طرح كا واقعہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہوا ہے، مثلا عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا اس منافق كونبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اجازت كے بغير قتل كرنا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلہ پر راضى نہيں ہوا تھا، تو اس كے اقرار ميں قرآن نازل ہوا.
اور اسىطرح بنت مروان جسے اس مرد نے قتل كر ديا تھا حتى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اللہ اور اس كے رسول كا مددگار كا نام ديا، يہ اس ليے كہ جسے كسى معنى يعنى دين كے خلاف چال اور مكر كرنے اور دين كو خراب كرنے كى بنا پر قتل كرنا واجب ہو چكا ہو، وہ اس جيسا نہيں جس نے كسى شخص كو معصيت و نافرمانى زنا وغيرہ كى بنا پر قتل كر ديا ہو " انتہى
ديكھيں: الصارم المسلول ( 285 - 286 ).
واللہ اعلم .