الحمد للہ.
اول:
اس حدیث کو غزالی رحمہ اللہ نے "إحياء علوم الدين" (1/200) میں اور ابو طالب مکی نے "قوت القلوب" میں ذکر کیا ہے، اور اس کی تخریج کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ روایت سخت ضعیف سند کے ساتھ ابو موسی مدینی، اور ابو منصور دیلمی نے مسند الفردوس میں بیان کی ہے ، اور یہ روایت منکر ہے۔" ختم شد
اسی طرح اس روایت کو علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے موضوع روایات سے متعلق اپنی کتاب "الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة" کے صفحہ: 64 پر اور اسی طرح علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے من گھڑت روایات سے متعلق اپنی کتاب "الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة" کے صفحہ: (1/54) میں بیان کی ہے۔
دوم:
والدین یا دیگر فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کے لیے نیکی کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحیح موقف یہ ہے کہ میت کو صرف اسی نیکی کا ثواب پہنچتا ہے جس کا احادیث میں ذکر ملتا ہے، مثلاً: حج، عمرہ، صدقہ، اور ایسے شخص کی طرف سے روزہ جس پر روزے باقی تھے اور وہ روزے رکھے بغیر فوت ہو گیا، جبکہ ان تمام اعمال سے افضل عمل دعا ہے۔
چنانچہ مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ احادیث پر عمل کرنا چاہیے مسلمان کے لیے یہی کافی ہے، ضعیف اور من گھڑت روایات سے بچے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
واللہ اعلم