الحمد للہ.
یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، اہل علم نے اسے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس حدیث کے بارے میں علم ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔
البتہ ضعیف سند کے ساتھ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ:
"میں نے تورات -یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحائف-میں پڑھا اور اس میں تھا کہ: "اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابن آدم! توں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، میں نے تجھے پیدا کیا حالانکہ تیرا وجود بھی نہیں تھا ، اور میں نے تجھے ایک کامل انسان بنایا، میں نے تجھے مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر میں نے تجھے محفوظ جگہ پر نطفے کی حالت میں رکھا، پھر میں نے نطفے کو علقہ بنایا ، اور پھر علقہ کو مضغہ بنایا، اور پھر مضغہ میں ہڈیاں پیدا کیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا، اور تمہیں ایک الگ ہی تخلیق بنایا۔۔۔" پھر انہوں نے سوال میں مذکور چیزوں کو بھی بیان کیا ہے۔
اس روایت کو ابو نعیم نے "حلیۃ الاولیاء" (10/399) میں ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدہ ربذی ہے اور محدثین نے اس راوی کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
دیکھیں تہذیب التہذیب ( 10 / 359 )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور روایت میں ذکر کی گئی بہت سی چیزیں ثابت نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر غلط اور غیر ثابت شدہ ہیں۔
مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ:
" میں نے تیرا چہرہ تیری ماں کی پیٹھ کی طرف کر دیا تاکہ کھانے کی بو تجھے تنگ نہ کرے" اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جنین کی جگہ کھانے کی جگہ سے بالکل الگ ہوتی ہے اس لیے کھانے کی بو کسی بھی صورت میں اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی!
اس میں یہ بھی ہے کہ: "تمہاری دائیں طرف تکیہ لگایا اور بائیں طرف بھی تکیہ لگایا ، تمہاری دائیں طرف کا تکیہ جگر اور بائیں طرف کا تکیہ تلی کو بنایا" حالانکہ جگر اور تلی جنین کے ساتھ نہیں ہوتے، تو تکیہ کیسے بن گئے؟
اسی طرح اس میں کہا گیا ہے کہ: " میں نے رحموں کے ذمہ دار فرشتے کو وحی کی کہ تجھے نکالے، تو اس نے تجھے اپنے بازو کے ایک پر پہ اٹھا کر نکالا " حالانکہ جنین کے ماں کے پیٹ سے فرشتے کے بازو کے پروں پر نکلنے کا ذکر کسی صحیح احادیث میں نہیں ہے، جب کہ مشاہداتی اور حقیقت پر مبنی بات یہ ہے کہ پیدائش کے وقت جنین اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے۔
واللہ اعلم