سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

خود ساختہ حدیث قدسی جو رحمِ مادر میں جنین کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔

  • 26454
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-01
  • مشاہدات : 62

سوال

مجھے ایک حدیث بذریعہ ایمیل موصول ہوئی ہے، میں اس حدیث کے صحیح ہونے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں، پیغام کا متن کچھ یوں تھا: ایک ایسی حدیث قدسی جس سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، اس سے خالق کی عظمت عیاں ہوتی ہے، اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ (اے ابن آدم! میں نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں پیدا کیا اور تیرے چہرے پر پردہ ڈالا تاکہ تو رحم سے متنفر نہ ہو جائے اور میں نے تیرا چہرہ تیری ماں کی پیٹھ کی طرف کر دیا تاکہ کھانے کی بو تجھے تنگ نہ کرے۔ تمہاری دائیں طرف تکیہ لگایا اور بائیں طرف بھی تکیہ لگایا ، تمہاری دائیں طرف کا تکیہ جگر اور بائیں طرف کا تکیہ تلی کو بنایا، اور میں نے تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں کھڑا ہونا اور بیٹھنا سکھایا ، یہ کام میرے سوا کوئی اور کر سکتا ہے؟۔ پس جب تمہارا وقت پورا ہو گیا اور میں نے رحموں کے ذمہ دار فرشتے کو وحی کی کہ تجھے نکالے، تو اس نے تجھے اپنے بازو کے ایک پر پہ اٹھا کر نکالا، تیرے پاس کاٹنے کو کوئی دانت نہیں تھے۔ نہ پکڑنے کے قابل ہاتھ تھے، نہ چلنے کے لائق پاؤ تھے، لہذا میں نے تیرے لیے تیری والدہ کے سینے میں دو رگیں چلا دیں جن کے اندر سردیوں میں خالص اور گرم دودھ جبکہ گرمیوں میں ٹھنڈا دودھ جاری کیا، اور میں نے تیری محبت تیرے والدین کے دلوں میں ڈالی تو وہ اس وقت تک سیر نہ ہوتے تھے جب تک تو سیر نہ ہو جائے، وہ اس وقت تک نہیں سوتے جب تک تو نہ سو جائے ، پس جب تیری کمر مضبوط ہو گئی اور تیرا زورِ بازو انتہا کو پہنچ گیا تو توں نے تنہائی میں گناہوں کے ذریعے میرا مقابلہ کرنا شروع کر دیا اور تجھے مجھ سے شرم نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود اگر تو نے مجھے پکارا تو میں نے تیری پکار کو سنا، اور اگر توں نے مجھ سے مانگا تو میں نے تجھے عطا کیا ، اور اگر توں نے توبہ کی تو میں تیری توبہ بھی قبول کروں گا۔)

الحمد للہ.

یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، اہل علم نے اسے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس حدیث کے بارے میں علم ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔

البتہ ضعیف سند کے ساتھ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ:
"میں نے تورات -یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحائف-میں پڑھا اور اس میں تھا کہ: "اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابن آدم! توں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، میں نے تجھے پیدا کیا حالانکہ تیرا وجود بھی نہیں تھا ، اور میں نے تجھے ایک کامل انسان بنایا، میں نے تجھے مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر میں نے تجھے محفوظ جگہ پر نطفے کی حالت میں رکھا، پھر میں نے نطفے کو علقہ بنایا ، اور پھر علقہ کو مضغہ بنایا، اور پھر مضغہ میں ہڈیاں پیدا کیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا، اور تمہیں ایک الگ ہی تخلیق بنایا۔۔۔" پھر انہوں نے سوال میں مذکور چیزوں کو بھی بیان کیا ہے۔

اس روایت کو ابو نعیم نے "حلیۃ الاولیاء" (10/399) میں ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدہ ربذی ہے اور محدثین نے اس راوی کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے۔

دیکھیں تہذیب التہذیب ( 10 / 359 )

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور روایت میں ذکر کی گئی بہت سی چیزیں ثابت نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر غلط اور غیر ثابت شدہ ہیں۔

مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ:

" میں نے تیرا چہرہ تیری ماں کی پیٹھ کی طرف کر دیا تاکہ کھانے کی بو تجھے تنگ نہ کرے" اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جنین کی جگہ کھانے کی جگہ سے بالکل الگ ہوتی ہے اس لیے کھانے کی بو کسی بھی صورت میں اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی!

اس میں یہ بھی ہے کہ: "تمہاری دائیں طرف تکیہ لگایا اور بائیں طرف بھی تکیہ لگایا ، تمہاری دائیں طرف کا تکیہ جگر اور بائیں طرف کا تکیہ تلی کو بنایا" حالانکہ جگر اور تلی جنین کے ساتھ نہیں ہوتے، تو تکیہ کیسے بن گئے؟

اسی طرح اس میں کہا گیا ہے کہ: " میں نے رحموں کے ذمہ دار فرشتے کو وحی کی کہ تجھے نکالے، تو اس نے تجھے اپنے بازو کے ایک پر پہ اٹھا کر نکالا " حالانکہ جنین کے ماں کے پیٹ سے فرشتے کے بازو کے پروں پر نکلنے کا ذکر کسی صحیح احادیث میں نہیں ہے، جب کہ مشاہداتی اور حقیقت پر مبنی بات یہ ہے کہ پیدائش کے وقت جنین اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے۔

واللہ اعلم

تبصرے