سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے، کسی اور کے آثار سے نہیں کیا جاسکتا

  • 26446
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-01
  • مشاہدات : 63

سوال

میرے اسلامی بھائیو! انٹر نیٹ پر میں نے ایک ویب سائٹ دیکھی مجھے کچھ ایسا مواد ملا جسے میں بدعت سمجھتا ہوں، لیکن حقیقت اللہ ہی جانتا ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اس حدیث کی صحت کے بارے میں بتائیں، مجھے اس میں شک ہے، حدیث صحیح مسلم کتاب نمبر: 24، اور حدیث نمبر: 5149ہے، اسماء بنت ابو بکر کے غلام عبداللہ جو کہ عطاء کے بچوں کے ماموں بھی لگتے ہیں وہ کہتے ہیں: مجھے اسماء نے عبد اللہ بن عمر کی طرف بھیجا، اور کہلوایا کہ : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ(عبد اللہ بن عمر) تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں (1)کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار وغیرہ کو (2)سرخ زین کو(3)ماہ رجب کے پورے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے جواب میں کہا: تم نے جو رجب کے روزوں کا ذکر کیا ہے تو جو آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہو وہ ماہ رجب کے روزوں کو کیسے حرام قرار دے سکتا ہے؟ اور باقی جو تم نے کپڑوں پر نقش ونگار کا ذکر کیا تو اس بارے میں میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: (ریشم کا لباس وہی شخص پہنتا ہے جسکا -آخرت میں -کوئی حصہ نہ ہو) تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ریشمی نقش ونگار بھی اس حکم میں داخل نہ ہوں اور باقی رہا سرخ زین کا مسئلہ؛ تو عبداللہ کی بھی زین ہے جو کہ سرخ ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ اسماء سے جا کر ذکر کردیا تو اسماء نے کہا کہ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے،چنانچہ اسماء نے ایک طیالسی کسروانی جبہ نکالا جس کا گربیان دیباج –قدرتی ریشم کی ایک قسم ہے-کا تھا اور اس کے دامن اور کفیں دیباج سے بنی ہوئی تھی،اسماء کہتی ہیں: یہ جبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے انتقال تک انہی کے پاس تھا، پھر جب انکا انتقال ہوگیا تو یہ جبہ میں نے لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" مذکورہ بالا حدیث کس حد تک درست ہے؟

الحمد للہ

یہ حدیث مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم (2069) میں ہے، جیسے کہ سائل نے ذکر کی ہے، اور امام احمد نے اپنی مسند میں (182) پر مختصراً ذکر کی ہے، اور بیہقی نے اپنی سنن میں (4381) پر عبدالملک بن ابو سلیمان کی سند سے روایت کی ہے۔

مذکورہ بالا حدیث کی سند متصل ہے، تمام راوی ثقہ ہیں، اور اس حدیث کی صحت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام مسلم نے اسے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے، اور ہم نے کسی سے اس حدیث کے بارے میں کوئی نقطہ چینی والی بات نہیں سنی، چنانچہ جس حدیث کا اتنا معیار بلند ہو تو کسی کو اس کے بارے میں نقطہ چینی اور صحت میں تردد نہیں کرنا چاہئے۔

جبکہ اس حدیث کی شرح میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابن عمر نے رجب کے روزوں کا جواب اِنکے بارے میں پہنچنے والی خبر کا انکار کرتے ہوئے دیا، اور بتلایا کہ وہ خود ہی پورے رجب کا روزہ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ ابدی روزوں کا اہتمام کرتے تھے، ابدی روزوں سے مراد عیدین اور ایام تشریق کے علاوہ دنوں کے روزے مراد ہیں، یہ ابن عمر، انکے والد عمر بن خطاب، عائشہ ، ابو طلحہ اور انکے علاوہ دیگر سلف امت کا موقف ہے، اور شافعی وغیرہ علماء کا موقف ہے کہ پورا سال روزے رکھنا مکروہ نہیں ہے۔

جبکہ ریشمی نقش و نگار کے بارے میں انہوں نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ اسے حرام کہتے ہیں، بلکہ انہیں بتلایا کہ انہوں نے احتیاط سے کام لیا ہے کہ کہیں ریشم سے عام ممانعت کے تحت نقش ونگار بھی شامل نہ ہوں۔

اور سرخ زین کے بارے میں اسماء کو ملنے والی خبر کابھی انکار کیا اور کہا: یہ دیکھو میری زین ہے، جو کہ سرخ رنگ کی ہے، لیکن ریشم کی نہیں ہے، بلکہ اون وغیرہ سے بنی ہوئی ہے، پہلے-شرح نووی میں – گزر چکا ہے کہ زین کبھی کبھار ریشم کی بھی بنا لی جاتی تھی، اور کبھی اون کی، اور جن احادیث میں اس کی ممانعت ہے، وہ ریشمی زین کے متعلق ہیں۔

اور اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ریشمی کفوں والا جبہ نکال کر یہ بیان کرنا چاہا کہ ریشمی نقش ونگار بنوانا حرام نہیں ہے، امام شافعی وغیرہ کے ہاں یہی حکم ہے کہ قمیص یا جبہ، یا عمامہ وغیرہ کے کنارے اگر ریشمی ہوں تو چار انگلیوں کے برابرتک جائز ہے، اس سے زائد ہوگا تو حرام ہے۔

اور اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ خالص ریشمی یا جس میں زیادہ مقدار ریشم کی ہو ایسا کپڑا منع ہے، اوراس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ریشم کے ہر جزء کی حرمت مراد نہیں جیسے شراب اور سونے میں ہے، کہ شراب اور سونے کا چھوٹے سے چھوٹا جزء بھی حرام ہے" مختصراً

حدیث کے آخر میں اسماء رضی اللہ عنہا کا کہنا:

" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" یہ تبرک کی ایسی قسم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی، چنانچہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کیا۔

واللہ اعلم .

تبصرے