سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ

  • 26443
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-01
  • مشاہدات : 25

سوال

سوال سیدنا مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا کیا عقیدہ ہے؟ کیا عیسیٰ علیہ السلام نے الوہیت کا دعوی کیا تھا؟ اور کیا عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانے میں نازل ہوں گے؟ کیا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے یا آپ کو آسمانوں کی جانب اٹھا لیا گیا ہے؟

جواب کا خلاصہ

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالی کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں، اور آپ اللہ تعالی کے مکرم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی جانب رسول بنا کر بھیجا کہ آپ انہیں اللہ تعالی کی وحدانیت اور عبادت کی دعوت دیں۔ مسلمان مانتے ہیں کہ وہ خود الٰہ نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ اللہ کے بیٹے ہیں عیسائی ان کے بارے میں یہ دونوں باتیں جھوٹی کرتے ہیں۔ مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کی تصدیق کے لیے آپ کو نشانیاں دیں۔ آپ کی پیدائش کنواری سیدہ مریم بتول سے والد کے بغیر ہوئی ہے۔ آپ علیہ السلام نے یہودیوں کے لیے کچھ ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا جو پہلے ان پر حرام تھیں، آپ علیہ السلام کو موت نہیں آئی اور نہ ہی آپ کے دشمن یہود آپ کو قتل کر سکے ہیں، بلکہ اللہ تعالی نے آپ کو یہودیوں سے محفوظ رکھا اور انہیں زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ مسلمانوں کے عقیدے میں شامل ہے کہ عیسی علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش خبری سنائی تھی، آپ آخری زمانے میں دوبارہ پھر نازل ہوں گے اور یہودی انہیں جھٹلا دیں گے کہ انہوں نے تو اپنے تئیں عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا تھا، جبکہ عیسائی انہیں اس لیے جھٹلا دیں گے کہ ان کے دعوے میں عیسیٰ بن مریم اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں۔ نیز سیدنا عیسیٰ بن مریم بھی ان سے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین بھی قبول نہیں کریں گے، اور قیامت کے دن عیسائیوں کے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق الوہیت کے جھوٹے دعوے سے اظہار براءت کریں گے۔

تفصیلات

الحمد للہ.

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ وہی ہے جو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ملتا ہے۔

چنانچہ ہم سب مسلمان یہ مانتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں، اور آپ اللہ تعالی کے مکرم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی جانب رسول بنا کر بھیجا کہ آپ انہیں صرف ایک اللہ تعالی کی وحدانیت اور عبادت کی دعوت دیں۔

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرائيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ
 ترجمہ: اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں یقیناً تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے نازل ہونے والی تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا۔ پھر جب وہ رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے : ’’یہ تو صریح جادو ہے‘‘ [الصف: 6]

وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرائيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
ترجمہ: اور مسیح نے تو یہ کہا تھا :’’اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ کیونکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی بھی مدد گار نہ ہو گا‘‘ ۔[المائدہ: 72]

کیا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام الٰہ ہیں؟

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام الٰہ نہیں ہیں، نہ ہی اللہ تعالی کے بیٹے ہیں، اگرچہ عیسائی اس کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں۔

اس حوالے سے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
 ترجمہ: بلا شبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے ۔[المائدہ: 72]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ
 ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ ’’عزیر اللہ کا بیٹا ہے‘‘ اور عیسائی کہتے ہیں کہ ’’مسیح اللہ کا بیٹا ہے‘‘ یہ تو ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ وہ ان کافروں کے قول کی ریس کر رہے ہیں جو ان سے پہلے تھے۔ اللہ انہیں غارت کرے یہ کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ [التوبہ: 30]

آپ علیہ السلام جس وقت بچے کے گہوارے میں تھے تو اللہ تعالی نے سب سے آپ سے کہلوایا تھا کہ:
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِي الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا
 ترجمہ: اس نے کہا: یقیناً میں اللہ کا بندہ ہوں، اور اللہ نے مجھے کتاب دی ہے، اور مجھے نبی بنایا ہے۔[مریم: 30]

کیا اللہ تعالی نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر تائید فرمائی؟

ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کی تصدیق کے لیے آپ کو نشانیاں دیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلا سِحْرٌ مُبِينٌ

ترجمہ: جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے ، پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔ [المائدۃ: 110]

ہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کنواری سیدہ مریم بتول کے بطن سے والد کے بغیر ہوئی ہے، اور یہ چیز اللہ تعالی کی قدرت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ وہ تو جس چیز کا ارادہ فرما لے تو وہ لفظ "کن" کہنے سے فوری ہو جاتی ہے۔

اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور پھر اسے کہا: ہو جا، تو وہ ہو گئے۔ [آل عمران: 59]

ایک اور مقام پر فرمایا:
إِذْ قَالَتْ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرَّبِينَ (45) وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلا وَمِنْ الصَّالِحِينَ (46) قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
 ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے، دنیا اور آخرت میں بہت مرتبے والا اور مقرب لوگوں سے ہو گا۔ [45] اور لوگوں سے گہوارے میں بات کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور نیک لوگوں سے ہو گا۔[46] اس نے کہا اے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، حالانکہ کسی بشر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا ؟ فرمایا اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے ہو جا ، تو وہ ہو جاتا ہے۔ [آل عمران: 45 - 47]

ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے یہودیوں کے لیے کچھ ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا جو پہلے ان پر حرام تھیں۔

اس حوالے سے اللہ تعالی نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنے بارے میں بتلایا:
وَمُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
 ترجمہ: اور تورات (کی ہدایت) جو میرے زمانہ میں موجود ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں نیز (اس لیے) آیا ہوں کہ بعض باتیں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں انہیں تمہارے لیے حلال کر دوں۔ میں تمہارے پاس اپنے پروردگار کی نشانی لے کر آیا ہوں لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو [آل عمران: 50]

کیا عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں؟

ہم مسلمانوں کو یہ عقیدہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو موت نہیں آئی اور نہ ہی آپ کے دشمن یہود آپ کو قتل کر سکے ہیں، بلکہ اللہ تعالی نے آپ کو یہودیوں سے محفوظ رکھا اور انہیں زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھا لیا۔

چنانچہ اللہ تعالی نے یہودیوں کے بارے میں فرمایا:
وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (156) وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
ترجمہ: نیز اس لیے (اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی) کہ انہوں نے حق بات کا انکار کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان لگا دیا [156] نیز یہ کہنے کی وجہ سے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر ڈالا ہے۔‘‘ حالانکہ انہوں نے اسے نہ تو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ یہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا تھا۔ اور جن لوگوں نے اس معاملہ میں اختلاف کیا وہ خود بھی شک میں مبتلا ہیں۔ انہیں حقیقت حال کا کچھ علم نہیں محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل نہیں کیا تھا [157] بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اللہ بہت زور آور اور حکمت والا ہے۔ [النساء: 156 - 158]

اور ہم مسلمانوں کے عقیدے میں شامل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش خبری سنائی تھی۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرائيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ
 ترجمہ: اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! میں یقیناً تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل ہوئی۔ اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا۔ پھر جب وہ رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے : ’’یہ تو صریح جادو ہے‘‘ [الصف: 6]

کیا عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانے میں نازل ہوں گے؟

ہمارا ایمان ہے کہ آپ آخری زمانے میں دوبارہ پھر نازل ہوں گے اور یہودی انہیں جھٹلا دیں گے کہ انہوں نے تو اپنے تئیں عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا تھا، جبکہ عیسائی انہیں اس لیے جھٹلا دیں گے کہ ان کے دعوے میں عیسیٰ بن مریم اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں۔ نیز سیدنا عیسیٰ بن مریم بھی ان سے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین بھی قبول نہیں کریں گے۔

چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔) اس حدیث کو بخاری: (2222) اور مسلم: (155) نے روایت کیا ہے۔

حدیث مبارکہ کے عربی الفاظ:  لَيُوشِكَن کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام ضرور اور جلدی سے ہو گا۔

أَنْ يَنْزِل فِيكُمْ یعنی تمہاری امت میں سیدنا عیسیٰ نازل ہوں گے۔

حَكَمًا مُقْسِطًا یعنی: عادل اور حکمران ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ: اس شریعت کے مطابق حکمرانی کریں گے؛ کیونکہ یہ شریعت باقی ہے اور رہے گی، یہ منسوخ نہیں ہو گی، بلکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس امت کے حکمرانوں میں سے ایک حاکم ہوں گے۔

{ فَيَكْسِر الصَّلِيب، وَيَقْتُل الْخِنْزِير} یعنی عیسائیت کا بالکل خاتمہ کر دیں گے کہ حقیقت میں صلیب توڑ دیں گے، اور عیسائیوں کے ہاں صلیب کے احترام کا جو نظریہ پایا جاتا ہے اسے کالعدم قرار دے دیں گے۔

وَيَضَع الْجِزْيَة اس کے بارے میں علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کے مفہوم کے بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کسی سے جزیہ قبول ہی نہیں کریں گے، چنانچہ کافروں سے جزیہ لینے کی بجائے انہیں صرف اسلام قبول کرنے کا کہیں گے، اور اگر ان میں سے کوئی جزیہ ادا کر بھی دے تو اس سے وصول نہیں کیا جائے گا، یا تو اسلام قبول کرے گا یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار ہو جائے۔ ان الفاظ کا یہی مفہوم امام ابو سلیمان خطابی اور دیگر اہل علم نے بیان کیا ہے۔" ختم شد

يَفِيض الْمَال یعنی: مال کی کثرت ہو جائے گی، مال زیادہ ہونے کی وجہ اللہ تعالی کی طرف سے برکت، اور تسلسل کے ساتھ ذرائع آمدن بڑھتے چلے جائیں گے؛ کیونکہ نظام عدل قائم ہو گا، اور کہیں بھی ظلم نہیں ہو گا، تو اس وقت زمین اپنے خزانے نکال باہر کرے گی، اور لوگوں کو مال کی لالچ نہیں رہے گی؛ کیونکہ انہیں یقین ہو گا کہ قیامت قریب ہے۔

اس کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گی اور مسلمان آپ علیہ السلام کا جنازہ ادا کر کے آپ کی تدفین کریں گے۔

جیسے کہ مسند احمد: (9349) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرا تعلق ہے؛ کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہیں ۔۔۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے آخر زمانے میں نازل ہونے کا تذکرہ فرمانے کے بعد فرمایا: (پھر جب تک اللہ تعالی چاہے گا وہ زمین پر رہیں گے، پھر آپ فوت ہو جائیں گے، اور مسلمان آپ کا جنازہ ادا کر کے آپ علیہ السلام کی تدفین کریں گے۔) اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ (2182) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ہم مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ: قیامت کے دن عیسائیوں کے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق الوہیت کے جھوٹے دعوے سے اظہار براءت کر دیں گے۔

اللہ تعالی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ (116) مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنْ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
 ترجمہ: اور جب کہ اللہ تعالی فرمائے گا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی ، اللہ سے ہٹ کر معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ: میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جسے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا؛ تو تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اسے نہیں جانتا ، تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔ [116] میں نے تو ان سے صرف وہی کہا تھا جو تو نے مجھے کہنے کو فرمایا تھا کہ : تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ، میں جب تک ان میں رہا ان پر گواہ رہا ۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران رہا ، اور یقیناً تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔ [المائدۃ: 116- 117]

صحیح بخاری: (3435) اور مسلم: (28) میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ عیسیٰ اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں، جسے اللہ نے مریم کی جانب القا کیا تھا، اور اللہ کی طرف سے روح ہیں ، اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو اس نے جو بھی عمل کیا ہو گا(آخر) اللہ تعالی اسے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے ؛ داخل فرما دے گا۔)

واللہ اعلم

 

اسلام سوال وجواب

فتوی نمبر:43148

تبصرے