الحمد للہ.
اول:
سوال میں مذکور دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسے کہ اہل علم نے اسے ذکر کیا ہے۔
چنانچہ ابان بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص تین بار یہ کہے:
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ
[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]
تو اسے صبح تک کوئی اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی اور جو یہ کلمات صبح کے وقت کہے تو شام تک اسے اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی)
راوی کہتے ہیں کہ: ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک آدمی جس نے ابان سے یہ حدیث سنی تھی ابان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا تو ابان نے پوچھا : تم میری طرف کیسے دیکھ رہے ہو!؟ اللہ کی قسم! میں نے عثمان پر جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا تھا، اصل بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے میں غصے میں تھا اور یہ دعا پڑھنا بھول گیا۔
ابو داود (5088) اور ترمذی نے اس روایت کو حدیث نمبر: (3388) میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
(جو شخص روزانہ تین صبح اور شام کہے:
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ
[اللہ کے نام سے(میں صبح یا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)، اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں دیتی، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے]تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا)
روایت ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث "حسن اور غریب ہے" اس حدیث کو ابن قیم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " (2/338) میں اور البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ دعا ان عظیم اذکار میں سے ہے جن کی ہر مسلمان کو صبح اور شام کے وقت پابندی کرنی چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اچانک پہنچی والی بلاؤں مصیبتوں اور نقصانات وغیرہ سے محفوظ رہے۔
قرطبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، یہ حدیث صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اس پر ہمیں دلیل اور تجربے ہر دو طرح سے اطمینان ہے؛ کیونکہ میں نے جب سے یہ روایت سنی تھی میں پابندی سے یہ دعا پڑھا کرتا تھا ، پھر جب مجھ سے چھوٹ گئی تو مجھے مدینہ میں رات کے وقت ایک بچھو نے کاٹ لیا، تو میں نے خوب سوچ و بچار کی تو مجھے یاد آیا کہ میں نے ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالی کی پناہ حاصل نہیں کی تھی" انتہی
دیکھیں: " الفتوحات الربانية " از: ابن علان (3/100)
یہ دعا پڑھنے کیلیے سنت یہی ہے کہ صبح و شام تین ، تین بار اسے پڑھا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنے کیلیے یہی عدد بتلایا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ اس کا مطلب یہ ہے کہ: جو شخص بھی اللہ تعالی کا نام لے کر اس کی پناہ میں آتا ہے تو اسے آسمان یا زمین کسی بھی جانب سے کوئی مصیبت نہیں پہنچتی۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی اپنے بندوں کی باتوں کو سننے والا ہے، بندوں کے افعال جاننے والا ہے، اللہ تعالی کے سامنے کسی کا کوئی عمل چاہے وہ زمین میں ہو یا آسمان میں اللہ تعالی سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔
نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ! مجھے کل رات ایک بچھو نے ڈنگ مار دیا ہے، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
[میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ] تو تمہیں بچھو ڈنگ نہ مارتا)" مسلم: (2709)
اور اسی طرح ترمذی کی روایت میں ہے کہ:
(جو شخص شام کے وقت تین بار کہے:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
[میں تمام مخلوقات کے شر سے اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ذریعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ] تو اس رات کوئی بھی زہریلی چیز اسے نقصان نہ دے) ترمذی: (3604)
حدیث کے عربی متن میں " اَلْحُمَةُ "کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: کوئی بھی زہریلی چیز مثلاً: بچھو وغیرہ ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے سہیل بن ابو صالح –مذکورہ حدیث کے راوی-کی یہ روایت ذکر کر کے ذکر کیا کہ : سہیل بن ابو صالح کہتے ہیں: ہمارے تمام بچوں اور گھر والوں نے یہ دعا سیکھی ہوئی تھی ، چنانچہ سب گھر والے روزانہ ہر رات کو یہ دعا پڑھا کرتے تھے، ایک رات ایک بچی کو بچھو نے ڈنگ مارا تو بچی کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
یہ حدیث اس دعا کی فضیلت کیلیے دلیل ہے، چنانچہ جو شخص شام کے وقت یہ دعا پڑھے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے سانپ کے ڈسنے یا بچھو وغیرہ کے ڈنگ مارنے سے محفوظ رہے گا" انتہی مختصراً
" فقه الأدعية والأذكار " (3/12-14)
اللہ تعالی کے حکم سے نقصانات اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ بننے والے اذکار میں عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کی روایت بھی شامل ہے، آپ کہتے ہیں: "ہم ایک اندھیری اور سخت بارش والی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کیلیے نکلے تا کہ آپ نماز پڑھا دیں، تو ہم نے آپ کو تلاش کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا: (کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟) تو اس پر میں نے کچھ نہیں کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، دوسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ، تیسری بار پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو) تو میں نے کہا اللہ کے رسول کیا کہوں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (تم سورہ اخلاص ، سورہ الفلق اور سورہ الناس صبح اور شام تین ، تین بار پڑھو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گیں)"
ابو داود : (5082) اور ترمذی: (3575) نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن صحیح اور غریب" قرار دیا، جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اسے "الأذكار" (ص/107) میں صحیح الاسناد کہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ: مذکورہ بالا دعائیں اور اذکار اللہ تعالی کے حکم سے مسلمان کو ہمہ قسم کے نقصان اور تکلیف سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، تاہم یہ تحفظ اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ منسلک ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کو ان اذکار کے پڑھنے کے باوجود کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور فیصلے کے تحت ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کی کمال حکمت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ
ترجمہ: اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔[الرعد:11]
اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ: " يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ" سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کو آگے پیچھے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالی کی طرف سے تقدیری فیصلہ آ جائے تو کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
اور اسی طرح مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہر انسان پر ایک موکل فرشتہ ضرور ہوتا ہے، یہ فرشتہ اس انسان کو سوتے اور جاگتے جناتی یا انسانی شیطانوں سے تحفظ دیتے ہیں، چنانچہ کوئی بھی چیز انسان کو نقصان پہنچانے کیلیے آتی ہے تو یہ موکل فرشتہ اسے کہتا ہے: "الٹے قدموں واپس ہو جاؤ" لیکن جو چیز اللہ تعالی کے حکم سے آئے تو وہ اس انسان کو پہنچ کر رہتی ہے۔
"تفسیر ابن کثیر" (4/438)
دوم:
اہل خانہ کی طرف سے دعا کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کرنا تو یہ ان کیلیے سود مند نہیں ہو گا؛ کیونکہ زندہ افراد کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اذکار کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ جو چیزیں اس کیلیے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں ان کی خود ہی پابندی کرے، اور اپنے آپ کو ذکرِ الہی سے غافل لوگوں میں سے مت بنائے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ [205] إِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ
ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور خوف سے اور بلند آواز کے بغیر الفاظ سے صبح و شام یاد کر اور غافلوں سے نہ ہو [205] بیشک جو تیرے رب کے نزدیک ہیں، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ ۔[الأعراف:205-206]
سوم:
ابو درداء رضی اللہ عنہ کے مکان کے ارد گرد والے گھروں کے جل جانے والا قصہ سوال میں مذکور ذکر "بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ"سے منسلک ہو کر نہیں آیا، بلکہ ایک اور دعا کے ساتھ اس قصے کا ذکر ملتا ہے۔
چنانچہ طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ :
ایک شخص ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ابو درداء تمہارا گھر خاکستر ہو گیا ہے!
تو ابودرداء رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "میرا گھر نہیں جلا، اللہ تعالی میرے گھر کو نہیں جلائے گا؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا سنی ہے، جو شخص اس دعا کو دن کی ابتدا میں پڑے تو اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی، اور جو اسے شام کو پڑھے تو اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی:
اللهم أنت ربي ، لا إله إلا أنت ، عليك توكلت ، وأنت رب العرش العظيم، ما شاء الله كان ، وما لم يشأ لم يكن ، لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم ، أعلم أن الله على كل شيء قدير ، وأن الله قد أحاط بكل شيء علما ، اللهم إني أعوذ بك من شر نفسي ، ومن شر كل دابة أنت آخذ بناصيتها ، إن ربي على صراط مستقيم
اسے ابن السنی نے " عمل اليوم والليلة " :(57) میں، طبرانی نے " الدعاء " : (343) میں اور بیہقی نے :" دلائل النبوة " (7/121) میں اغلب بن تمیم ، حجاج بن فرافصۃ، طلق بن حبیب کی سند سے بیان کیا ہے۔
ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث ثابت نہیں ہے؛ اس کی سند میں "اغلب "نامی راوی ہے ، جس کے بارے میں :
یحیی بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ليس بشيء "[اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے]
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " منكر الحديث "[وہ منکر الحدیث ہے، یعنی سخت ضعیف ہے]" انتہی
" العلل المتناهية " (2/352)
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے " نتائج الأفكار " (2/401) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کی سند سخت ضعیف ہے، اس کی سند میں راوی "اغلب" کے بارے میں امام بخاری وغیرہ کہتے ہیں: " منكر الحديث "[وہ منکر الحدیث ہے] جبکہ حجاج بن فرافصہ بھی کمزور راوی ہے " انتہی
" السلسلة الضعيفة " (6420)
واللہ اعلم.