سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

انبیائے کرام کی معصومیت

  • 26440
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-27
  • مشاہدات : 49

سوال

سوال میں عقیدے کے متعلق سوال پوچھنا چاہتا ہوں، کیا ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام سے گناہ سر زد ہو سکتا ہے اور انبیائے کرام معصوم عن الخطا نہیں ہیں؟

الحمد للہ.

انبیائے کرام انسانوں میں سے منتخب اور چنیدہ افراد ہوتے ہیں، ان کا مقام اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ ہے، اللہ تعالی نے انہیں لوگوں کو تبلیغ دینے اور لا الہ الا اللہ کی دعوت دینے کے لیے منتخب فرمایا، پھر انہی کو شریعت کی تبلیغ کے لیے مخلوق اور خالق کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا، چنانچہ انبیائے کرام اللہ تعالی کے احکامات پہنچانے پر مامور ہوتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب بھی دی، قوت فیصلہ بھی اور نبوت بھی۔ اگر یہ کافر ان باتوں کا انکار کرتے ہیں (تو پروا نہیں) ہم نے کچھ اور لوگوں کے سپرد یہ خدمت کر دی ہے جو ان باتوں کے منکر نہیں ۔[الانعام: 89]

تو معلوم ہوا کہ انبیائے کرام کی ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے شریعت کی لوگوں کو تبلیغ کرنا ہے؛ اگرچہ انبیائے کرام بشر ہیں، اور ان کے بشر ہونے کی وجہ سے معصومیت کے متعلق دو چیزیں ہیں:

  • دینی تبلیغ میں غلطی سے معصوم۔
  • انسانی غلطیوں سے معصوم۔

دینی تبلیغ میں انبیائے کرام غلطی سے معصوم ہیں:

دینی تبلیغ کے حوالے سے انبیائے کرام کو غلطی سے محفوظ رکھا گیا ہے چنانچہ جتنے بھی انبیائے کرام ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالی کی طرف سے تبلیغ کرتے ہوئے ہر قسم کی غلطی سے معصوم ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی وحی میں سے کچھ نہیں چھپاتے اور نہ ہی اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرتے ہیں۔

اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا:

 يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

 ترجمہ: اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ کا پیغام پہنچانے کا حق ادا نہ کیا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ [المائدۃ: 67]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (٤٤) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (٤٥) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (٤٦) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ ‌حَاجِزِينَ
 ترجمہ: اگر وہ رسول خود کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمہ لگا دیتا [44] تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے [45] اور پھر اس کی شہ رگ کات دیتے ۔ [46] تو تم میں سے کوئی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ [الحاقہ: 44 - 47]

اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں یہ بھی فرمایا:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
 ترجمہ: اور وہ غیب کی باتیں بتلانے میں بخیل نہیں ہے۔[التکویر: 24]

الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی وہ پیغمبر اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی وحی کو بیان کرنے میں بخیلی نہیں کرتا کہ کچھ بیان کر دے اور کچھ بیان نہ کرے؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل زمین اور اہل آسمان سب کے امین ہیں، آپ نے اپنے رب کے پیغامِ رسالت کو واضح ترین انداز میں پہنچا دیا، اس کی تبلیغ میں ذرہ کسر نہیں چھوڑی، کوئی غنی ہو یا فقیر، حاکم ہو یا رعایا، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی سب کو پیغامِ رسالت پہنچا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ان پڑھ قوم میں مبعوث فرمایا ، اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی اس وقت سب کے سب یہی لوگ ربانی علما تھے، ہر کوئی مختلف علوم سیکھنے کے لیے انہی سے رجوع کرتا تھا۔۔۔" ختم شد

چنانچہ نبی اپنے رب کے دین اور شریعت کی تبلیغ میں چھوٹی یا بڑی کوئی بھی غلطی نہیں کرتا، اس کام میں وہ اللہ تعالی کی طرف سے معصوم عن الخطا ہوتا ہے۔

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام کے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ سب کے سب انبیائے کرام، اور ان میں سے بالخصوص ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تبلیغ دین کے حوالے سے معصوم عن الخطا تھے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى (١) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (٢) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (٣) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (٤) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى
 ترجمہ: تارے کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے۔ [1] کہ تمہارا ساتھی نہ تو گمراہ ہوا ہے اور نہ ہی غلط راستے پر چلا ہے۔ [3] وہ تو صرف وحی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے [4]اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے۔ [النجم: 1 - 5] اس لیے ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی کی طرف سے دین کی قولی، عملی اور تقریری تبلیغ میں بالکل معصوم ہیں، اس حوالے سے اہل علم میں کچھ بھی اختلاف نہیں ہے۔" ختم شد

اسی طرح پوری امت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ تمام رسول ، پیغام رسالت حاصل کرنے میں بھی مکمل معصوم عن الخطا ہیں، لہذا اللہ تعالی ان کی طرف جو کچھ بھی وحی فرماتا ہے اس میں سے کچھ بھی نہیں بھولتے، سوائے منسوخ قرار دی جانے والی چیزوں کے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق اللہ تعالی نے ذمہ داری لی ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ایسے پڑھائے گا کہ آپ بھول نہیں پائیں گے، صرف وہی چیز آپ کے دل سے محو ہو گی جو اللہ تعالی چاہے گا، پھر اللہ تعالی نے خود یہی ذمہ داری لی کہ اللہ تعالی قرآن کریم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینے میں محفوظ فرمائے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (٦) إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ
 ترجمہ: ہم آپ کو ایسے پڑھائیں گے کہ آپ بھول نہیں سکیں گے۔ [6] سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔ [الاعلی: 6 - 7]

ایسے فرمایا:
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ ‌وَقُرْآنَهُ (١٧) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ترجمہ: یقیناً [آپ کے سینے میں] اسے جمع کرنا اور [پھر آپ کا اسے] پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ [17] پس جب ہم اسے پڑھ چکے تو پھر آپ اسے پڑھیں۔[القیامہ: 17 - 18]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (18/ 7) میں کہتے ہیں:
"انبیائے کرام کی نبوت پر دلالت کرنے والی آیات یہ بھی بتلاتی ہیں کہ تمام انبیائے کرام اللہ تعالی کی طرف سے لی ہوئی خبریں آگے بیان کرنے میں بالکل معصوم عن الخطا ہیں؛ اس لیے ان کی بتلائی ہوئی خبر حق ہی ہوتی ہے، اور نبوت کا لغوی معنی بھی یہی ہے۔ نیز اس لفظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو غیب کی خبریں دیتا ہے، نیز انبیائے کرام بھی لوگوں کو وہی خبریں دیتے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں غیب کی خبریں بتلائی ہیں۔ جبکہ رسول کو اللہ تعالی کی طرف سے ملے ہوئے پیغام رسالت کی تبلیغ عوام تک پہنچانے اور اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہوتا ہے۔" ختم شد

انبیائے کرام کی بشری خطاؤں سے معصومیت:

ابنیائے کرام بطور بشر غلطی کا امکان ہو سکتا ہے، اس کی کچھ حالتیں ہیں:
1- انبیائے کرام سے کبیرہ گناہ سر زد نہیں ہوتے۔

انبیائے کرام سے بعثت سے پہلے یا بعد میں کبیرہ گناہ سر زد نہیں ہوتے، کبیرہ گناہ کرنے سے انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (4/ 319) میں کہتے ہیں:
"یہ موقف کہ انبیائے کرام صرف کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں؛ صغیرہ سے نہیں تو یہ اکثر علمائے اسلام، اور تمام گروہوں کا موقف ہے۔۔۔ یہی موقف اکثر مفسرین، محدثین اور فقہائے کرام کا ہے، بلکہ سلف صالحین، ائمہ کرام، صحابہ عظام اور تابعین وغیرہ سے بھی جو بات منقول ہے وہ اسی کے موافق ہے۔ " ختم شد

2-ایسے امور میں غلطی جو کہ رسالت اور وحی سے تعلق نہیں رکھتے۔

چنانچہ صغیرہ گناہ انبیائے کرام سے یا چند نبیوں سے سر زد ہو سکتے ہیں، اسی لیے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ انبیائے کرام صغیرہ گناہوں سے معصوم نہیں ہیں، اور اگر کوئی گناہ ان سے ہو جائے تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے فوری متنبہ کیا جاتا ہے، اور پھر انبیائے کرام فوری اس سے توبہ بھی کر لیتے ہیں۔

انبیائے کرام سے صغیرہ گناہ سر زد ہونے اور پھر فوری ان کی طرف سے توبہ کی دلیل:

  • سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان:
  •  وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ[121] ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ 
  • ترجمہ: اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی تو وہ بھٹک گیا۔ [121] پھر اسے اس کے رب نے چنیدہ بنایا تو اس کی توبہ قبول فرمائی اور اس کی رہنمائی بھی کی۔ [طہ: 121 - 122]
  • تو یہ بات دلیل ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے نافرمانی ہوئی، اور وہ غلطی پر برقرار نہیں رہے بلکہ فوری توبہ کر لی اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ بھی قبول فرمائی۔
  • اسی طرح سیدنا موسی علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا:
  •  قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ[15] قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ 
  •  ترجمہ: موسی نے کہا: یہ تو شیطانی عمل ہے؛ یقیناً شیطان واضح دشمن ہے۔ [15] اس نے کہا: میرے پروردگار! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، پس تو مجھے بخش دے۔ تو اللہ نے اسے بخش دیا؛ یقیناً وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [القصص: 15 - 16] تو موسی علیہ السلام سے جیسے ہی قبطی کا قتل ہوا تو فوری اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اللہ تعالی سے مغفرت بھی طلب کی، تو اللہ تعالی ان کا یہ گناہ معاف فرما دیا۔
  • اسی طرح اللہ تعالی نے سیدنا داود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩[23] فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ ترجمہ: تو داود نے اپنے رب سے بخشش طلب کی اور رکوع کرتے ہوئے نیچے جھک گئے اور اللہ سے رجوع کیا۔ [23]تو ہم نے ان کی یہ غلطی معاف کر دی، یقیناً ان کے لیے ہمارے پاس بڑا قرب اور اچھا ٹھکانہ ہے۔ [24 - 23]

ایسے ہی ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اللہ تعالی نے کچھ معاملات پر سرزنش فرمائی، جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:

  • اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ترجمہ: اے نبی! آپ اس چیز کو حرام قرار کیوں دیتے ہیں جو اللہ تعالی نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے، آپ اپنی بیویوں کی رضا مندی کے متلاشی ہیں؟ اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[التحریم: 1] یہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا چند امہات المؤمنین کے ساتھ ہونے والا مشہور واقعہ مراد ہے۔
  • اسی طرح اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی سرزنش فرمائی تھی، جیسے کہ صحیح مسلم: (4588) میں ہے کہ: "سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: (ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟) کہا: میں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں ۔۔ عمر کے ہم نسب ۔۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو پسند کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا۔ جب اگلا دن ہوا (اور) میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے، آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے پیش کی تھی، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا) ۔۔ وہ درخت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا ۔۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ (کسی نبی کے لیے (روا) نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے ۔۔۔" اس فرمان تک ۔۔۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا "تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں۔" [الانفال: 67 -69] تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا۔"

تو اس حدیث مبارکہ میں واضح ہے کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں معاف کر دینا نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابہ کرام کے مشورے کے ساتھ اجتہادی فیصلہ تھا، اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے صریح رہنمائی موجود نہ تھی۔

  • اسی طرح اللہ تعالی نے سیدنا عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے مشہور واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں فرمایا: عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ[1] أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ترجمہ: اس نے تیوڑی چڑھائی اور منہ موڑ لیا۔ [1] کہ اس کے پاس نابینا آ گیا ہے۔ [عبس: 1 - 2]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (4 / 320) میں کہتے ہیں:
"جمہور علمائے کرام سے جو کچھ نقل کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کو صغیرہ گناہوں پر برقرار نہیں رہنے دیا جاتا، نہ ہی انبیاء خود صغیرہ گناہ پر برقرار رہتے ہیں۔ علمائے کرام یہ بھی نہیں کہتے کہ: انبیائے کرام سے گناہ سر زد ہی نہیں ہوتا۔ امت اسلامیہ کے مختلف فرقوں میں سے سب سے پہلے جس فرقے نے انبیائے کرام کو مطلقا معصوم عن الخطا قرار دیا اور اس چیز کو بہت زیادہ اچھالا یہ رافضی فرقہ ہے؛ ان کے ہاں انبیائے کرام کو ہر اعتبار سے معصوم عن الخطا سمجھا جاتا ہے حتی کہ انبیائے کرام سے بھول، سہو اور تاویل کی وجہ سے بھی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔" ختم شد

ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات گراں محسوس ہو کہ انبیائے کرام سے غلطی کا امکان ہے، اس لیے وہ کتاب و سنت کی نصوص جن میں انبیائے کرام سے ہونے والی غلطی کا ذکر ہے وہ ان میں معنوی تحریف کر دیں، ایسے لوگ دو شبہات کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں:

پہلا شبہ: اللہ تعالی نے رسولوں کی اتباع اور اقتدا کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ رسولوں کی اتباع کے حکم کا تقاضا ہے کہ انبیائے کرام جو کام بھی کریں وہ قابل اتباع ہو؛ لہذا انبیائے کرام سے صادر ہونے والا ہر فعل، یا اعتقاد اطاعت ہے۔ چنانچہ اگر یہ ممکن ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی نافرمانی ہو سکتی ہے تو تناقض پیدا ہو جائے گا؛ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور جبکہ نافرمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ، اب اگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کی اتباع کی جائے گی یا نافرمانی ہونے کی وجہ سے اتباع نہیں کی جائے گی؟

یہ شبہ صحیح ہے اور لیکن اس کی جگہ یہ نہیں ہے، بلکہ اس کی جگہ تب ہوتی جب نافرمانی خفیہ نوعیت کی ہو کہ معصیت اور اطاعت میں تفریق کرنا مشکل ہو جائے، لیکن اللہ تعالی تو غلطی ہونے پر اپنے رسولوں کو فوری متنبہ فرما دیتا ہے، اور پھر انہیں بلا تاخیر توبہ کرنے کی توفیق بھی دیتا ہے۔

دوسرا شبہ: گناہ صادر ہونا انسان میں کمی ہے جو کہ کمال کے منافی ہے۔ یہ شبہ بھی صحیح ہے لیکن اس وقت جب گناہ کے بعد توبہ نہ کی جائے؛ کیونکہ توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتا ہے اور گناہ ہو جانے پر توبہ کر لینا کمال کے منافی نہیں ہے، نہ ہی ایسے گناہ کرنے والے کو ملامت کا نشانہ بنایا جائے گا، بلکہ بہت سے اوقات میں ایسا ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے بعد انسان پہلے سے بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ کسی بھی نبی سے کوئی بھی گناہ ہو تو وہ توبہ و استغفار میں تاخیر نہیں کرتے، کیونکہ انبیائے کرام کو گناہ پر برقرار نہیں رکھا جاتا، اور نہ ہی انبیائے کرام توبہ کرنے میں تاخیر کرتے ہیں، بلکہ توبہ کرنے کے بعد ان کے کمال میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

3- بعض دنیاوی امور میں غیر ارادی غلطی

مکمل شعور، درست رائے کی صلاحیت، اور قوتِ بصیرت کے ہوتے ہوئے بعض دنیاوی امور میں غلطی انبیائے کرام سے ہو سکتی ہے، ایسی کچھ غلطیاں بعض انبیائے کرام سے سر زد ہوئی ہیں اور ان میں ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی شامل ہیں، ایسی کوتاہیاں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی مثلاً: زراعت اور طب وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (6127) میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجوروں کی پیوند کاری کر رہے تھے، وہ اپنے اس عمل کو "کھجوروں کو بار آور کرنا" کہتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: (تم کب سے یہ کام کر رہے ہو؟) تو انہوں نے کہا: ہم شروع سے کرتے چلے آ رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم یہ کام نہ کرو تو بہتر ہے۔) تو لوگوں نے پیوند کاری چھوڑی دی جس کے نتیجے میں پھل جھڑ گیا یا کم ہو گیا۔ تو اس بات کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں بشر ہوں، جب میں تمہیں تمہارے دین کے متعلق حکم دوں تو اسے لے لو، اور جب میں تمہیں کوئی کام اپنی رائے سے کہوں تو میں بشر ہی ہوں۔

تو ان تمام تر تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے انبیائے کرام وحی کے حوالے سے معصوم عن الخطا ہیں، اس لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تبلیغِ رسالت کے حوالے سے تشکیک پیدا کرنے والوں سے خبردار رہنا چاہیے، ان کے مطابق شرعی احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجتہادات ہیں!!حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو وحی کے بغیر کچھ کہتے ہی نہیں تھے: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (٣) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
 ترجمہ: وہ اپنی مرضی سے بولتا بھی نہیں ہے۔ [3] وہ تو صرف وحی ہے جو اس کی طرف نازل کی جاتی ہے۔ [النجم: 1 - 5]

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (3/194)میں سوال پوچھا گیا:

کیا انبیائے کرام اور رسولوں سے غلطی ہو سکتی ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"انبیائے کرام سے غلطی ہو سکتی ہے ، لیکن اللہ تعالی انہیں ان کی غلطی پر برقرار نہیں رہنے دیتا بلکہ ان پر اور ان کی امت پر رحمت فرماتے ہوئے انہیں فوری متنبہ فرما دیتا ہے، اور ان کی توبہ قبول کر کے ان کی غلطی معاف کر دیتا ہے، جو کہ اللہ تعالی کا فضل اور رحمت ہے، اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اس حوالے سے قرآنی آیات میں یہ امور واضح ہیں۔" ختم شد

واللہ اعلم

اسلام سوال وجواب

فتوی نمبر:42216

تبصرے