الحمد للہ.
جی ہاں کچھ ایسی چیزیں ہیں اللہ تعالی نے جن کا ذکر قرآن میں کیا ہے کہ ان کا وقوع ہو گا اور واقعی وہ ہو چکی ہیں ان میں کچھ یہ ہیں :
1 - رومیوں کے ہاتھوں فارسیوں کی کچھ سالوں میں شکست
فرمان باری تعالی ہے:
(رومی مغلوب ہو گۓ ہیں نزدیکی کی زمین میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب چند سالوں میں ہی غالب آجائیں گے اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالی کا ہی ہے اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے ) الروم / 2- 4
امام شوکانی فرماتے ہیں :
اہل تفسیر کا قول ہے کہ : فارسی رومیوں پر غالب ہوئےتو اس سے کفار مکہ بہت خوش ہوئےاور کہنے لگے کہ جن کے پاس کتاب نہیں وہ کتاب والوں پر غالب ہو گۓ ہیں اور وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں فخر کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ ہم بھی تم پر غالب ہوں گے جس طرح کہ فارسی رومیوں پر غالب ہوئےاور مسلمان یہ پسند کرتے تھے کہ اہل کتاب ہونے کی بنا پر رومی فارسیوں پر غالب ہوں ۔
( اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب چند سالوں میں ہی غالب آ جائیں گے ) یعنی رومی فارسیوں کے غلبے کے بعد وہ خود ان فارسیوں پر غالب ہو ں گے ۔
زجاج کا کہنا ہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو کہ اس بات پر دلالت کرتیں ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے ہے کیونکہ اس میں وہ خبر ہے جس کا وقوع ہو گا جسے اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔
فتح القدیر جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 124
ب : عیسائی فرقوں کی آپس میں قیامت تک دشمنی
فرمان باری تعالی ہے :
( اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد وپیمان لیا انہوں نے جو انہیں نصیحت کی گئي تھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا تو ہم نے بھی ان کے درمیان بغض وعداوت ڈال دی جو قیامت تک رہے گی اور عنقریب اللہ تعالی انہیں وہ کچھ بتا دے گا جو یہ کر رہے ہیں ) المائدہ
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( تو ہم نے بھی ان کے درمیان بغض وعداوت ڈال دی جو قیامت تک رہے گی ) یعنی ہم نے ان کی آپس میں دشمنی اور ایک دوسرے سے بغض ڈال دیا اور وہ اس میں قیامت تک پڑے رہیں گے تو اسی لۓ عیسائیوں کے مختلف فرقے ایک دوسرے سے بغض اور دشمنی رکھتے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے اور لعنتیں کرتے ہیں ۔
لھذا ہر فرقہ دوسرے کو حرام کرتا اور اسے اپنے عبادت خانے (گرجے ) میں داخل نہیں ہونے دیتا تو اسی طرح ملکیہ یعقوبی فرقے کو کافر کہتے ہیں اور ایسے ہی دوسرے فرقے ایک دوسرے کو اور ایسے ہی نسطوری آریوسیہ کو تو اس دنیا میں ہر فرقہ دوسرے کو کافر قرار دیتا ہے جو کہ قیامت تک رہے گا ۔
تفسیر ابن کثیر جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 34
ت : اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کا دین سب دینوں پر غالب ہو گا ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
(اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے تمام مذہبوں پر غالب کر دے )
سورۃ التوبۃ / 33 اور الفتح / 28 اور الصف / 9
قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
تو اللہ تعالی نے کر دیا اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو کسی مہم پر روانہ کرتے تو انہیں یہ بتاتے کہ اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے دین کو غالب کرے گا تا کہ لشکر کو مدد اور کامیابی کا پختہ یقین ہو جائے اور ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی کرتے رہے تو مشرق ومغرب اور خشکی اور سمندر میں اسلامی فتوحات ہوتی رہیں ۔
تفسیر قرطبی 1 / 75
ث: فتح مکہ :
ارشاد باری تعالی ہے :
( یقینا اللہ تعالی نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا کہ ان شاء اللہ تم پورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں سر منڈواتے ہوئےاور سر کے بال کٹواتے ہوئے( چین کے ساتھ) نڈر ہو کر داخل ہو گے وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے پس اس نے تمہیں اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح میسر کی ) الفتح / 27
طبری فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے ذکر کرتے ہوئےفرمایا ہے کہ : اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خواب جو انہیں دکھایا تھا کہ وہ اور ان کے صحابہ بیت اللہ میں امن کے ساتھ مشرکوں سے بغیر ڈرے بعض نے سر منڈوائے ہوئےاور بعض نے بال کتروائے ہوئےداخل ہوئےہیں اسے سچا کر دکھایا ۔
اور جس طرح کہ ہم نے کہا ہے اسی طرح کا قول اہل تاویل کا بھی ہے ۔
تفسیر طبری جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 107
ج : غزوہ بدر :
فرمان باری تعالی ہے :
( اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالی نے تم سے ان دو گرہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہارے ہاتھ غیر مسلح گروہ ائے اور اللہ تعالی کو یہ منظور تھا کہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے ) الانفال / 7
ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
( اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالی نے تم سے ان دو گرہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا ) کا معنی یہ ہے کہ طائفتان سے مراد ابو سفیان اور اس کے ساتھ جو کچھ مال تھا اور ابو جہل اور اس کے ساتھ جو قریش تھے تو جب ابو سفیان اپنے ساتھ جو کچھ تھا اسے بچا کر لے گیا تو اس نے قریش کو یہ لکھا کہ تم اپنے قافلے کو بچانے نکلے تھے تو میں اسے تمہارے لۓ بچا لیا ہے تو ابو جہل کہنے لگا اللہ کی قسم ہم واپس نہیں جائیں گے ۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قوم کا ارادہ کر کے چل پڑے تو صحابہ اس کو ناپسند کیا اور ان کی خواہش تھی کہ انہیں وہ گروہ ملے جس میں غنیمت ہے اور لڑائی نہ کرنی پڑے اور اللہ تعالی کا یہی قول ہے ( اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہارے ہاتھ غیر مسلح گروہ ائے ) یعنی اسلحہ کے بغیر ۔ زاد المسیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 324
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:23475