الحمد للہ.
ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے، اس پر اللہ کا شکر ہے۔ لہذا ہمیں ان دونوں باتوں کے درمیان تطبیق دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہاں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہہ سائل کے ذہن میں جو اشکال پیدا ہوا ہے وہ دو چیزوں کو آپس میں خلط ملط کرنے کی وجہ سے ہوا ہے، دونوں پر ایمان لانا واجب ہے اور دونوں ہی الحمد للہ حق ہیں۔
پہلی بات: انجیل اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ کتا ہے، اللہ تعالی نے اسے اپنے نبی عیسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، لہذا اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی عیسی علیہ السلام پر ایک کتاب نازل کی تھی جس کا نام انجیل تھا، یہ ایمان کے بنیادی ارکان میں شامل ہے، اور یہ ارکان ایسے ہیں کہ ان پر ایمان لانا نہایت ضروری ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
ترجمہ: رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ، (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ : "ہم نے اللہ کے احکام سنے اور اس کی اطاعت کی۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔" [البقرۃ: 285]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا جبریل علیہ السلام کو اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے ایک مشہور حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا : (ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی پر ایمان لائے، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں اور رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور اچھی بری تقدیر پر تو ایمان لائے۔) متفق علیہ
بالکل ایسے ہی اس بات کا انکار کرنا ، یا شک کرنا اللہ تعالی کے ساتھ کفر اور گمراہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَد ضَلَّ ضَلالا بَعِيداً
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی پر اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی ہیں؛ ایمان لاؤ! جو شخص اللہ تعالی سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ [النساء: 136]
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُهِيناً
ترجمہ: جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر[ایمان لانے میں] فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان راہ نکالیں۔ یقین مانو کہ یہی سب لوگ حقیقی کافر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ [النساء: 150 - 151]
دوسری بات: انجیل کے بارے میں ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آج کل عیسائیوں کے ہاں موجود ایک انجیل نہیں بلکہ اناجیل ہیں تو یہ زیادہ معتبر تعبیر ہو گی، تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ انجیل وہ کتاب ہے جو اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام پر نازل فرمائی، تو اسی طرح ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اب لوگوں کے پاس ایسی کوئی انجیل نہیں ہے جو اسی حالت میں ہو جیسے اللہ تعالی نے اسے نازل فرمایا تھا، بلکہ قرآن کریم کے علاوہ ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جو اپنی اصلی حالت میں ہو، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ عیسائی حضرات خود کبھی بھی اس بات کا دعوی نہیں کرتے کہ ان ہاتھوں میں موجود اناجیل اسی شکل میں ہیں جیسے اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئیں تھیں، بلکہ وہ تو یہ بھی دعوی نہیں کرتے کہ یہ اناجیل خود عیسی علیہ السلام نے لکھی تھیں، یا کم از کم عیسی علیہ السلام کے زمانے میں لکھی گئیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب: الفِصَل في الملل (2/2) میں لکھتے ہیں:
"ہمیں عیسائیوں کی اناجیل اور دیگر کتابوں کے بارے میں ایسے دلائل جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن سے یہ ثابت ہو کہ یہ کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہیں، نہ ہی سیدنا عیسی علیہ السلام کی جانب سے ہیں! تاہم ہمیں تورات اور دیگر ایسی کتابوں کے بارے میں ایسے دلائل کی ضرورت پڑتی ہے جو یہودیوں کے ہاں انبیائے کرام کی طرف منسوب کی جاتی ہیں کہ یہ کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں؛ کیونکہ جمہور یہودی اس بات کے قائل ہیں کہ ان کے ہاں موجود تورات اللہ تعالی کی طرف سے موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، اس لیے ہمیں ان کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت پڑی۔ لیکن عیسائیوں میں یہ کام خود عیسائیوں نے کر دکھایا؛ کیونکہ ان کا یہ دعوی ہی نہیں ہے کہ موجودہ اناجیل اللہ تعالی کی طرف سے عیسی علیہ السلام پر نازل شدہ ہیں، نہ ان کا یہ دعوی ہے کہ عیسی علیہ السلام انہیں لے کر آئے تھے، بلکہ اول تا آخر سب کے سب عیسائی آریائیوں سے لے کر بادشاہوں تک، نسطوریوں سے لے کر یعقوبیوں تک، مارونیوں سے لے کر آرتھوڈکس تک کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ یہ چاروں اناجیل چار مشہور اور الگ الگ لوگوں نے مختلف اوقات میں لکھی ہیں، تو ان میں سے سب سے پہلے انجیل متی ہے جس کے مؤلف کے بارے میں قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ وہ بھی مسیح علیہ السلام کا شاگرد تھا، اور یہ مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے 9 سال بعد لکھی گئی۔ یہ عبرانی زبان میں شام کے یہوذا شہر میں لکھی گئی تھی، متوسط کتابت کے یہ 28 اوراق تھے۔ اس کے بعد انجیل مرقس جو کہ شمعون بن یونا کے شاگرد المعروف پیٹر نے عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے 22 سال بعد لکھی گئی، یہ یونانی زبان میں رومی شہر انطاکیہ میں لکھی گئی تھی، کہا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کتاب شمعون نے لکھی تھی لیکن انہوں نے آغاز میں سے اپنا نام مٹا کر اپنے شاگرد مرقس کا نام لکھ دیا اور اسی کی طرف اس کو منسوب کر دیا۔ یہ 24 اوراق پر مشتمل متوسط کتابت والی انجیل ہے اور مذکورہ شمعون عیسی علیہ السلام کا شاگرد ہے۔ تیسری انجیل لوقا کی ہے، جو کہ انطاکیہ کا ایک معالج تھا اور یہ بھی شمعون المعروف پیٹر کا ہی شاگرد ہے، یہ بھی یونانی زبان میں مرقس کی انجیل کے بعد لکھی گئی ہے، اس کا حجم بھی انجیل متی کے برابر تھا۔ چوتھی انجیل یوحنا ہے جو کہ عیسی علیہ السلام کے شاگرد ابن زبیدی کے شاگرد ہیں، انہوں نے اسے مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے 60 سال سے زائد عرصے کے بعد لکھا تھا، یہ بھی متوسط کتابت والے 24 اوراق پر مشتمل ہے" ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "الجواب الصحیح"(3/21) میں کہتے ہیں:
"عیسائیوں کے ہاتھوں میں موجود چاروں اناجیل: انجیل متی، انجیل لوقا، انجیل مرقس اور انجیل یوحنا۔ سب عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ لوقا اور مرقس دونوں نے عیسی علیہ السلام کو دیکھا تک نہیں تھا، آپ علیہ السلام کو صرف متی اور یوحنا نے دیکھا تھا۔ اور یہ چار کتابیں جن کے مجموعے کو انجیل کہتے ہیں، یا ان میں سے ہر ایک کو انجیل کہتے ہیں، یہ چاروں کی چاروں ہی مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد لکھی گئی ہیں، ان چاروں میں سے کسی ایک میں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، یا عیسی علیہ السلام نے اسے اللہ تعالی کی طرف سے پہنچایا ہے، بلکہ اس میں عیسی علیہ السلام کے کلام کا مفہوم ذکر کیا ہے اور کچھ آپ کے کارنامے اور معجزے ذکر کیے ہیں۔" ختم شد
پھر یہی کتابیں جو کہ مسیح علیہ السلام کے کافی بعد لکھی گئی ہیں یہ سب کی سب اپنی پہلی اصلی صورت میں بھی نہیں ہیں، کیونکہ اس کے ابتدائی نسخے کافی عرصہ گم رہے ہیں ، چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عیسائیوں میں سے بلکہ غیر عیسائیوں میں سے بھی کوئی ایک شخص بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ عیسی علیہ السلام کی زندگی میں صرف 120 لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے ۔۔۔، نیز جتنے لوگ بھی آپ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے سب کے سب آپ علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی خفیہ ہی رہے، چھپ چھپا کر دین کی دعوت دیتے رہے، کوئی ایک شخص بھی اعلانیہ عیسی علیہ السلام کے دین کی دعوت نہیں دیتا تھا، نہ ہی اپنے دین کا اعلان کرتا تھا، جس کسی کا پتا چل جاتا کہ وہ عیسی علیہ السلام کے دین پر ہے تو اسے قتل کر دیا جاتا تھا۔۔۔
اس طرح وہ خفیہ حالت میں ہی رہے انہوں نے کبھی بھی اپنی اصلی ایمانی شناخت ظاہر نہیں کی عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے 300 سال بعد تک کسی کے لیے کوئی پر امن جگہ نہیں تھی۔
اسی دوران اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ انجیل بھی گم ہو گئی محض چند صفحات باقی رہے جو کہ اللہ تعالی نے اس لیے باقی رکھے تا کہ ان کے خلاف حجت بنیں اور ان کی ذلت و رسوائی کا باعث بنیں، پھر جب رومی بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کی تو تب جا کر عیسائیوں نے اپنے دین کا اظہار کرنا شروع کیا اور اکٹھے ہو کر ایمان کی دعوت دینے لگے۔
اگر کوئی مذہب اس طرح کی تاریخ رکھتا ہو تو یہ نا ممکن ہے کہ اس میں کوئی بھی بات متصل سند کے ساتھ موجود ہو؛ کیونکہ خفیہ طریقے سے حاصل کی جانے والی چیز میں ملاوٹ کا اندیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اور اگر اس مذہب کے پیروکار چھپ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور مسلسل تلوار کے خوف میں زندگی بسر کر رہے ہوں تو ان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنی مقدس کتابوں کو محفوظ رکھیں اور انہیں اصلی حالت میں نسل در نسل منتقل کر سکیں۔" ختم شد
الفصل 2/4-5
پہلے تو ان کی کتابوں کے سند میں اتنے لمبے عرصے کا انقطاع ہے کہ جو دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے، پھر یہ کتابیں ان زبانوں میں باقی نہیں رہیں جن میں یہ اصل میں لکھی گئی تھیں، بلکہ ان کا ترجمہ ایک سے زیادہ مرتبہ ایسے لوگوں نے کیا ہے جن کی علمی قابلیت اور سطح سمیت ان کی ایمانداری کا معیار بھی سب کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ چنانچہ ان کتابوں میں موجود تضادات اور ان کی خامیاں اس بات کے مضبوط ترین ثبوت میں سے ہیں کہ ان میں تحریف کی گئی ہے اور یہ وہ انجیل نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی تھی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان بالکل صحیح ثابت ہوتا ہے کہ:
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافاً كَثِيراً
ترجمہ: اور اگر یہ غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ [النساء: 82]
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:47516