سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فرشتے کون ہیں؟

  • 26416
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-18
  • مشاہدات : 53

سوال

سوال فرشتے کون ہیں؟ ان کی ذمہ داریاں اور شکل و صورتی کیسی ہیں؟ ان کی تعداد اور نام کیا ہیں؟ نیز ان کی تخلیق کب ہوئی؟ اور کس چیز سے انہیں پیدا کیا گیا ہے؟ سب سے بڑا فرشتہ کون ہے؟

الحمد للہ.

فرشتوں پر ایمان لانا ایمان کا رکن ہے۔
فرشتوں پر ایمان لانا ایمان کے چھ لازمی ارکان میں سے ایک رکن ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایمان کے ان چھ ارکان پر ایمان نہیں لاتا تو وہ مومن نہیں ہے، وہ چھ ارکان یہ ہیں: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی کے فرشتوں پر ایمان، اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان، اللہ تعالی کے رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، اور اللہ تعالی کی طرف سے لکھی گئی اچھی بری تقدیر پر ایمان۔

فرشتے کون ہیں؟
فرشتوں کا تعلق عالَم غیب سے ہے جس کے بارے میں ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالی نے ہمیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی خبریں بتلائیں ہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی بھی ان کے متعلق معلومات دی ہیں، تو ذیل میں فرشتوں کے متعلق ثابت شدہ صحیح معلومات اور خبریں بیان کرتے ہیں، تا کہ محترمہ سائلہ کو فرشتوں کے بارے میں حقیقی معلومات حاصل ہوں، اور سائلہ محترمہ اللہ تعالی کی عظمت کا تصور اپنے ذہن میں قائم کر سکیں، نیز یہ بھی جان سکیں کہ یہ دین کتنا عظیم دین ہے جس کی وجہ سے ہمیں فرشتوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

فرشتے کس چیز سے پیدا کیے گئے ہیں؟
فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی ہے ، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ،اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا، اور آدم علیہ السلام کو اسی چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلائی گئی ہے۔) مسلم: (2996)

فرشتے کب پیدا کیے گئے ہیں؟
فرشتوں کی تخلیق کس وقت ہوئی ہے ؟ہمیں اس کا معین وقت معلوم نہیں ہے؛ کیونکہ اس حوالے سے کتاب و سنت میں وضاحت نہیں ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ فرشتوں کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے یقیناً پہلے ہوئی ہے کیونکہ قرآن کریم میں بالکل صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: یقیناً میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ [البقرۃ: 30] تو یہاں اللہ تعالی نے فرشتوں کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے تخلیق آدم سے پہلے موجود تھے۔

فرشتوں کی عظمت

اللہ تعالی نے جہنم کے فرشتوں کے بارے میں فرمایا: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ اس پر تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ [التحریم: 6]

تمام فرشتوں میں سے مطلق طور پر سب سے بڑے فرشتے سیدنا جبریل علیہ السلام ہیں، آپ کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی حالت میں دیکھا تو ان کے 600 پر تھے، اور ان میں سے ہر ایک پر پورے افق میں پھیلا ہوا تھا، ان کے پر سے اتنے رنگ برنگے موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے کہ اللہ تعالی ہی ان کی تعداد جانتا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ (1/47) میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا جبریل کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (میں نے جبریل علیہ السلام کو آسمان سے نیچے کی طرف اترتے ہوئے دیکھا آپ کے قد و قامت سے آسمان و زمین کے درمیان کا خلا بھرا ہوا تھا۔) مسلم: (177)

بڑے بڑے فرشتوں میں حملۃ العرش بھی آتے ہیں، ان کے قد و قامت کے حوالے سے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے اللہ تعالی کے فرشتوں میں سے ایک قسم حملۃ العرش فرشتوں کے بارے میں بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان میں سے ایک فرشتے کی کان کی لو سے لے کر کندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت کا ہے۔) سنن ابو داود، کتاب السنہ، باب فی الجہمیہ۔

فرشتوں کی خوبیاں اور صفات
ذیل میں فرشتوں کی کچھ صفات اور تفصیلات ذکر کرتے ہیں:

فرشتوں کے پر ہیں
جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ترجمہ: سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے۔ جن کے دو دو ، تین تین اور چار چار پر ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسے چاہے اضافہ کر دیتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [فاطر: 1]

فرشتے نہایت خوبصورت ہوتے ہیں
اللہ تعالی نے فرشتوں میں سے سیدنا جبریل علیہ السلام کی خوبصورتی کے بارے میں فرمایا: عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (٥) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى ترجمہ: اسے نہایت مضبوط فرشتے نے سکھایا ہے جو کہ خوبصورت ہے، پھر وہ کھڑا ہو گیا۔[النجم: 5 - 6] قرآنی الفاظ ذُو مِرَّةٍ کا معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق خوبصورت مظہر والا ہے، جبکہ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے مراد لمبا چوڑا اور خوبصورت مراد ہے۔

بہ ہر حال: تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فرشتے خوبصورت ہوتے ہیں، اسی لیے انسانوں میں سے خوبصورت شخص کو فرشتے سے تشبیہ دیتے ہیں، جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو عورتوں نے کہا تھا: فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ترجمہ: پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو ان سے حد درجہ مرعوب ہو گئیں اور اپنے ہاتھ زخمی کر لیے اور کہنے لگیں، بے عیب ذات اللہ کی، یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے، یہ تو یقیناً کوئی اونچے مرتبے کا فرشتہ ہے۔ [یوسف: 31]

جسامت اور فضیلت میں فرشتے مختلف درجہ بندیاں رکھتے ہیں

تمام فرشتے یکساں ایک ہی درجے کے نہیں ہے، بلکہ ان میں بھی درجہ بندیاں ہیں، چنانچہ فرشتوں میں سے افضل ترین فرشتے وہ ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، جیسے کہ سیدنا معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں ، ان کے والد بدری صحابی تھے، وہ کہتے ہیں کہ: ایک بار نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جبریل آئے اور کہنے لگے: تم بدر میں شریک ہونے والے لوگوں کو اپنے ہاں کس نگاہ سے دیکھتے ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہم انہیں تمام مسلمانوں میں سے افضل سمجھتے ہیں۔) یا ایسی ہی کوئی بات فرمائی، تو جبریل علیہ السلام نے کہا: (فرشتوں میں سے بھی جو شریک ہوئے تھے وہ بھی سب فرشتوں میں افضل ترین ہیں۔) بخاری: (3992)

فرشتے کھاتے پیتے نہیں ہیں۔
اس کی دلیل سیدنا خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پاس فرشتوں کی صورت میں آنے والے مہمانوں کا مکالمہ ہے ، کہ فرشتے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ملنے کے لیے آئے تھے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (٢٦) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (٢٧) فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ
 ترجمہ: پھر خاموشی کے ساتھ اپنے گھر والوں کے پاس دوڑ کر گئے، پھر ایک بھنا ہوا موٹا بچھڑا لے کر آئے [26] پھر اسے مہمانوں کو پیش کیا، ابراہیم نے کہا، آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں ہیں [27] پس وہ ان سے اپنے دل میں خائف ہوگئے، مہمانوں نے کہا : آپ ڈریں مت ، اور انہوں نے ابراہیم کو ایک ذی علم بیٹے کی خوش خبری دی ۔[الذاریات: 26 - 28]

ایک اور آیت میں ہے کہ:
فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ
 ترجمہ: پھر جب دیکھا کہ ان (مہمانوں) کے ہاتھ کھانے کے طرف نہیں بڑھتے تو انھیں مشکوک سمجھا اور دل میں خوف محسوس کرنے لگے (یہ صورت حال دیکھ کر) وہ کہنے لگے : ڈرو نہیں! ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔[ھود: 70]

فرشتے اللہ تعالی کے ذکر اور عبادت سے نہ تھکتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں:

فرمانِ باری تعالی ہے: يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ترجمہ: وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور وقفہ نہیں کرتے۔[الانبیاء: 20] اسی طرح فرمایا: فَالَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ترجمہ: وہ فرشتے جو آپ کے رب کے پاس ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور کسی وقت بھی نہیں اکتاتے۔ [فصلت: 38]

فرشتوں کی تعداد
فرشتوں کی تعداد ناقابل شمار ہے، ان کی تعداد کا صحیح علم اللہ تعالی کو ہی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتویں آسمان پر موجود بیت المعمور کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمایا: (میرے لیے بیت المعمور کو بلند کیا گیا، تو میں نے جبریل سے پوچھا، انہوں نے بتلایا: یہ بیت المعمور ہے، اس میں روزانہ 70 ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، ایک بار یہاں سے نکلنے پر دوبارہ کسی کی باری نہیں آتی۔) صحیح بخاری: (3207)

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( جب جہنم کو لایا جائے گا تو اس کی 70 ہزار طنابیں ہوں گی اور ہر طناب کو 70 ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔) مسلم: (2842)

فرشتوں کے نام
فرشتوں کے نام تو ہیں، لیکن ہمیں ان میں سے چند کے ہی ناموں کا علم ہے، لہذا جس کے نام کے متعلق صراحت موجود ہے اس فرشتے کے نام پر ایمان لانا واجب ہے، اور جس کے نام کی صراحت نہیں ہے تو مجموعی فرشتوں میں ان پر اجمالا ایمان لانا بھی واجب ہے، درج ذیل فرشتوں کے نام آتے ہیں:

1-2 جبریل اور میکائیل: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ (97) مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ترجمہ: آپ ان یہود سے کہہ دیجئے کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے (اسے معلوم ہونا چاہیے) کہ جبریل ہی نے تو اس قرآن کو اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس میں مومنوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی خوش خبری ہے [97] جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔ [البقرۃ: 97 - 98]

3-اسرافیل:

ان کا نام ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت رات کو قیام کرنا چاہتے تو رات کی نماز کا آغاز کس چیز سے کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا: جس وقت آپ رات کو قیام کرتے تو اپنی نماز کے آغاز میں یہ دعا پڑھتے تھے : اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
ترجمہ: اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے ان میں سے مجھے تو ہی ا پنے حکم سے حق پر چلا، بے شک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے ۔

4-مالک:
یہ اس فرشتے کا نام ہے جو جہنم کا داروغہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ترجمہ: اور وہ صدا لگائیں گے : اے مالک! تیرے رب کو چاہیے کہ ہمارا کام تمام کر دے۔ [الزخرف: 77]

5 – 6 منکر اور نکیر:

ان کا تذکرہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کے نیلی آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص [یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ] کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ (میت) کہتی ہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کر دی جاتی ہے ، پھر اس میں روشنی کر دی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے : سوجا، وہ کہتا ہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ سب کچھ بتا سکوں ، تو وہ دونوں کہتے ہیں: تو اس دلہن کی طرح سو جا جسے صرف وہی جگا تا ہے جو اس کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ منافق ہوا تو کہے گا: میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اسے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے: تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے گا۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1071) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن غریب قرار دیا ہے، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الجامع" (724) میں حسن قرار دیا ہے۔

7-8 ہاروت اور ماروت:

ان کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ترجمہ: اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا تھا ۔[البقرۃ: 102]

ان کے علاوہ اور بہت سے فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ترجمہ: تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پند و نصیحت ہے۔ [المدثر: 31]

فرشتوں میں پائی جانے والی صلاحیتیں
اللہ تعالی نے فرشتوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، چنانچہ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

فرشتوں کی روپ دھارنے کی صلاحیت
اللہ تعالی نے فرشتوں کو اپنی اصلی صورت کے علاوہ کوئی بھی صورت دھارنے کی صلاحیت سے نوازا ہے، چنانچہ جب اللہ تعالی نے سیدہ مریم علیہا السلام کے پاس جبریل علیہ السلام کو فرشتے کی شکل میں ارسال فرمایا تو اسی کا تذکرہ کیا کہ: فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ترجمہ: پس ہم نے اس کی جانب اپنے فرشتے کو بھیجا، تو اس نے مکمل بشر کا روپ دھار لیا۔[مریم: 17]

اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی علم نہ ہوا کہ یہ فرشتے ہیں، تا آں کہ فرشتوں نے خود بتلایا کہ ہم فرشتے ہیں۔

اسی طرح سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے خوبصورت نوجوان کی شکل میں آئے تھے۔

سیدنا جبریل علیہ السلام جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تو مختلف شکلوں میں آتے تھے، لہذا کبھی دحیہ کلبی کی شکل میں آتے، آپ رضی اللہ عنہ خوبصورت چہرے والے صحابی تھے، کبھی کسی دیہاتی کی شکل میں آتے تھے۔ صحیح بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق صحابہ کرام نے سیدنا جبریل کو انسانی شکل میں دیکھا ہوا تھا، جیسے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتی کہ وہ آ کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رانوں پر رکھ دیے ، اور کہا: اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔۔۔) الحدیث۔ صحیح مسلم: (8)

اس کے علاوہ اور بہت سی نصوص ہیں جن میں فرشتوں کے مختلف روپ دھارنے کا ذکر ہے، جیسے کہ 100 آدمیوں کو قتل کرنے والے آدمی کے واقعہ میں ہے کہ ان کے پاس ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں آیا۔ اور اسی طرح گنجے، کوڑھ والے اور نابینا تین لوگوں کی حدیث میں بھی فرشتے کے آدمی کی شکل میں آنے کا ذکر ہے۔

فرشتوں کی رفتار
آج انسان سب سے تیز جس رفتار کو جانتا ہے وہ روشنی کی رفتار ہے، جبکہ فرشتوں کی رفتار روشنی سے بھی کہیں زیادہ تیز ہے؛ کیونکہ ابھی سائل نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سوال رکھ ہی رہا ہوتا تھا کہ اللہ رب العزت کی جانب سے فرشتہ جواب لے کر پہنچ جاتا تھا۔

فرشتوں کی ذمہ داریاں
کچھ فرشتوں کی ذمہ داری وحی کی ہے، کہ وہ اللہ تعالی سے وحی لے کر رسولوں تک پہنچاتے ہیں، یہ ذمہ داری صرف سیدنا جبریل علیہ السلام کی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ
ترجمہ: جبریل ہی نے تو اس قرآن کو اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ [البقرۃ: 97]
انہی کی اس ذمہ داری بارے میں ایک اور مقام پر فرمایا:
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ(193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ
 ترجمہ: اسے روح الامین لے کر نازل ہوا ہے۔ [193] آپ کے دل پر تا کہ آپ متنبہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ [الشعراء:193- 194]

کچھ فرشتوں کی ذمہ داری بارش کے متعلق ہے کہ جہاں اللہ تعالی چاہے وہاں بارش کرتا ہے، یہ ذمہ داری میکائیل علیہ السلام کی ہے، اس معاملے میں ان کے معاون فرشتے بھی ہیں ، یہ معاونین ان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور میکائیل علیہ السلام بھی انہیں وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالی کی مشیئت کے مطابق ہواؤں اور بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔
ایک فرشتے کی ذمہ داری صور پھونکنے پر بھی ہے، ان کا نام اسرافیل ہے، صور سے مراد وہ آلہ ہے جو اسرافیل علیہ السلام قیامت کے وقت پھونکیں گے۔
کچھ فرشتے روح قبض کرنے کے لیے متعین ہیں، یہ ذمہ داری ملک الموت اپنے معاونین کے ہمراہ نبھاتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ترجمہ: کہہ دے: تمہیں ملک الموت فوت کرے گا، اسی کو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم سب اپنے رب کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔ [السجدۃ: 11] تاہم کسی بھی صحیح حدیث میں ملک الموت فرشتے کا نام عزرائیل ثابت نہیں ہے۔
کچھ فرشتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بندے کو سفر و حضر بلکہ بیداری اور نیند سمیت ہر حالت میں تحفظ فراہم کرنا ہے، یہی وہ فرشتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (10) لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ
ترجمہ: تم میں سے اگر کوئی بات کو مخفی طور پر کہے یا پکار کر کہے وہ اس کے لیے برابر ہے، اسی طرح اگر کوئی رات کی (تاریکی) میں چھپا ہوا ہو یا دن کی (روشنی) میں چل رہا ہو، اس کے لئے برابر ہے ۔ [10] ہر شخص کے آگے اور پیچھے اللہ کے مقرر کردہ نگران [فرشتے] ہوتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اللہ تعالی کسی قوم کی (اچھی) حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل دے اور جب اللہ تعالی کسی قوم پر مصیبت ڈالنے کا ارادہ کر لے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، نہ ہی اس کے مقابلے میں اس قوم کا کوئی مدد گار ہو سکتا ہے ۔[الرعد: 10 -11]
کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کی ذمہ داری لوگوں کے اچھے برے اعمال لکھنے کی ہوتی ہے، یہ محرر فرشتے ہیں، یہ فرشتے اللہ تعالی کے اس فرمان کے تحت آتے ہیں: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ترجمہ: اور وہ تم پر محافظ فرشتے بھیجتا ہے۔[الأنعام: 61]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

أَمْ يَحْسَبُوْنَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدْيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ

ترجمہ: کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی خفیہ اور سرگوشیاں نہیں سنتے؟! کیوں نہیں، ہمارے تو فرشتے ان کے پاس ہی لکھتے ہیں۔ [الزخرف: 80]

ایسے ہی محرر فرشتوں کے بارے میں فرمایا: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنْ الْيَمِينِ وَعَنْ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (17) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد ترجمہ: جب دو (فرشتے) ضبط تحریر میں لانے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب کچھ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں [17] وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔ [ق: 17 - 18]

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِين

ترجمہ: یقیناً تم پر محافظ فرشتے مقرر ہیں [10] جو معزز اور محرر ہیں۔ [الانفطار: 10 - 11]

اسی طرح کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی قبر میں سوالات کرنے کی ہے، یہ منکر اور نکیر فرشتوں کی ہوتی ہے، جیسے کہ سابقہ حدیث میں ہے کہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص [یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ] کے بارے میں کیا کہتا تھا۔۔۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
کچھ فرشتے جنت کے دروازوں پر ڈیوٹی دیتے ہیں، انہیں جنت کے دربان کہہ سکتے ہیں،

ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ

ترجمہ: اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے دربان انہیں کہیں گے : تم پر سلامتی ہو، خوش ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو جاؤ ۔[الزمر: 73]
کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی جہنم کے دروازوں پر ہے، انہیں جہنم کے داروغے کہتے ہیں، قرآن کریم میں انہیں "زبانیہ" کا نام دیا گیا ہے، ان کے سربراہ فرشتوں کی تعداد 19 ہے، اور ان میں سب سے اعلی ترین فرشتہ مالک علیہ السلام ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ: اور جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا انہیں گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ جہنم پر پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے داروغے انہیں کہیں گے :'' کیا تمہارے پاس تمہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے پروردگار کی آیات پڑھ کر سناتے اور اس دن کے لئے پیش ہونے سے تمہیں ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے : "کیوں نہیں" مگر کافروں پر عذاب کا حکم ثابت ہو کر رہا ۔[الزمر: 71]
اسی طرح ایک مقام پر ان کا نام بھی ذکر فرمایا:

فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17)سَنَدْعُ الزَّبَانِية

ترجمہ: وہ اپنی مجلس والوں کو بلا لے [17] ہم جہنم کے زبانیہ فرشتوں کو بلائیں گے۔ [العلق: 17 - 18]

ان کی تعداد کے متعلق فرمایا:

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ(27) لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ(28) لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ(29)عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ(30) وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلا مَلائِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا

ترجمہ: اور آپ کو کس چیز نے بتلایا کہ سقر نامی جہنم کیا ہے؟ [27] وہ نہ تو باقی رکھتی ہے اور نہ ہی چھوڑتی ہے۔ [28] وہ چمڑی کو جھلسا دینے والی ہے۔ [29] اس پر 19 فرشتے مقرر ہیں۔ [30] اور ہم نے جو لوگ دوزخ پر مقرر کیے ہیں وہ کوئی اور نہیں؛ فرشتے ہیں اور ان کی جو تعداد رکھی ہے یہ کافروں کے جانچنے کے لئے رکھی ہے تاکہ وہ لوگ یقین کریں۔ جنہیں کتاب ملی ہے ۔ اور ایمانداروں کا ایمان بڑھے۔ [المدثر: 27 - 30]

اور ان کے سربراہ کے بارے میں فرمایا:

وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُوْنَ

ترجمہ: اور وہ صدا لگائیں گے: اے مالک ![جہنم کے فرشتے کا نام] تیرے رب کو چاہیے کہ ہمارا کام تمام کر دے۔ تو وہ کہے گا: یقیناً تم یہیں ٹھہرنے والے ہو۔[الزخرف: 77]

کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی رحم میں نطفے پر ہوتی ہے، جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ ہمیں صادق اور مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا : (تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک [نطفے کی شکل میں ]ہوتی ہے پھر اتنی ہی مدت خون کے لوتھڑے کی صورت اختیار کیے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک چبائے ہوئے گوشت کی طرح رہتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالی ایک فرشتہ روح پھونکنے کے لیے بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں ( کے لکھنے ) کا حکم دیتا ہے ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل ، اس کا رزق ، اس کی عمر اور یہ کہ بد ہے یا نیک ، لکھ دے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں ہے ! ایک شخص زندگی بھر نیک عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کر دیتا ہے ، اور اپنے ان اعمال کی وجہ سے جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص زندگی بھر برے کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ جنت والوں کے کام شروع کر دیتا ہے، چنانچہ وہ اپنے ان اعمال کی وجہ سے جنت میں چلا جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3208) اور مسلم : (2643) نے روایت کیا ہے۔
انہی فرشتوں میں سے کچھ حاملین عرش فرشتے بھی ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ

ترجمہ: جو فرشتے عرش اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو فرشتے اس کے گرد جمع ہیں، یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے رب ! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، پس تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی، اور تیری راہ کی پیروی کی، اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے ۔[غافر: 7]
کچھ فرشتے زمین پر ذکر کی مجالس تلاش کر کے ان میں شرکت کرتے ہیں، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پالے تے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا ۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں ۔ [پھر مجلس کے اختتام پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں] پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے-حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے-کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالی پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا ۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے ، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھ چکے ہوتے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالی دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالی دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے ، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے ۔ پھر اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ، دوزخ سے ۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو تیرا ذکر کرنے والوں میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ یہ ذکر کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔)
کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی پہاڑوں کے متعلق ہوتی ہے، جیسے کہ ایک بار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے ( طائف کے سردار ) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا ۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا ۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جناب جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالی آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالی نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اسے حکم دے دیں ۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی ، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
کچھ فرشتے بیت المعمور زیارت کرنے والے ہوتے ہیں، جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسرا اور معراج کی لمبی حدیث میں ذکر کیا ہے کہ: (میرے لیے بیت المعمور کو بلند کیا گیا، تو میں نے جبریل سے پوچھا، انہوں نے بتلایا: یہ بیت المعمور ہے، اس میں روزانہ 70 ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، ایک بار یہاں سے نکلنے پر دوبارہ کسی کی باری نہیں آتی۔)
کچھ فرشتے ایسے ہیں جو صفوں میں قطار در قطار کھڑے ہیں وہ کھڑے رہنے سے اکتاتے نہیں ہیں، اسی طرح کچھ فرشتے حالت قیام میں ہیں وہ کبھی بیٹھتے نہیں ہے، اور کچھ رکوع و سجدے کی حالت میں پڑے رہتے ہیں سجدے سے اپنا سر ہی نہیں اٹھاتے، جیسے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: " بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے ، اس لیے کہ اس میں چار انگلیوں کی بھی جگہ خالی نہیں ہے ، ہر جگہ کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤو گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالی سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاؤ۔
اس حدیث کو سنن ترمذی: (2312) نے روایت کیا ہے ۔

یہ اللہ تعالی کے معزز فرشتوں کے بارے میں تفصیلات کا خلاصہ ہے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں فرشتوں سے محبت کرنے والا بنائے، اور اللہ تعالی ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت نازل فرمائے۔

 

اسلام سوال وجواب

فتوی نمبر:843

تبصرے