الحمد للہ.
نماز وغیرہ میں برے وسوسے وغیرہ آنا یہ شیطان کی طرف سے ہے جو کہ مسلمان کو گمراہ کرنے اور خیر اور بھلائی سے محروم اور اس سے دور کرنے پر حریص ہے ۔
صحابہ میں سے ایک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ اسے نماز میں وسوسے آتے ہیں تو وہ کہنے لگا کہ میرے اور میری نماز کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا اور میری قرابت کو مجھ پر خلط ملط کر دیتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یہ شیطان ہے اسے خنزب کہتے ہیں جب آپ محسوس کریں تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں اور بائیں طرف تین دفعہ تھوکیں تو صحابی کہتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالی نے یہ وسوسے ختم کر دیۓ ) صحیح مسلم حدیث نمبر 2203
نماز میں خشوع وخضوع ہی اصل چیز اور لب لباب ہے تو نماز خشوع کے بغیر نماز ایسے ہی ہے جیسے کہ بغیر روح کے جسم ہو ۔
خشوع کے لۓ ممد اور معاون دو چیزیں ہیں :
اول : بندہ یہ سوچنے اور سمجھنے میں جدوجہد کرے کہ وہ کیا عمل کرنے لگا اور کیا کہنے لگا ہے اور قرات اور اللہ تعالی کے ذکر اور دعا مانگنے میں غور و فکر اور تدبر کرنا اور یہ بات ذہن میں رکھنا کہ وہ اللہ تعالی سے سرگوشی اور مناجات کر اور اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے کیونکہ نمازی شخص جب کھڑا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ اپنے رب سے مناجات اور سرگوشیاں کر رہا ہے اور احسان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت ایسے کریں کہ گویا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہے ۔
پھر جب بندہ نماز کی لذت اور مٹھاس چکھتا ہے تو اس کا نماز میں انہماک یقینی اور زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ ایمان کی قوت کے مطابق ہے کہ جتنا ایمان قوی ہو گا اتنی لذت اور مٹھاس زیادہ حاصل ہو گی – اور ایمان کو قوی کرنے والی بہت سی اشیاء ہیں – تو اسی لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( میرے لۓ تمہاری دنیا میں سے دو چیزیں پیاری بنائی گئي ہیں عورتیں اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئي ہے )
اور دوسری حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے بلال ( رضی اللہ عنہ ) ہمیں نماز کے ساتھ راحت دے )
دوم : ان سوچوں اور تفکرات کو دفع اور دور اور ختم کرنے کی جدوجہد کرنا جو کہ دل کو مشغول کر دیں اور جن کا کوئی فائدہ نہ ہو اور ان چیزوں پر غور و فکر کرنا جو کہ دل میں نماز کے مقصد کی جاذبیت پیدا کریں اور یہ ہر بندے میں اس کے حال ہیں کیونکہ وسوسوں کی کثرت شبہات اور شہوات کی کثرت کی بنا پر ہیں اور دل کا تعلق ان محبوب چیزوں سے ہونا جو کہ دل کو انہیں حاصل کرنے کے لۓ پھیر دیں اور ان مکروہات کی طرف جو کہ دل کو انہیں دور کرنے کی طرف پھیر دیں ۔
انتہی : مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 605
اور جو آپ نے یہ ذکر کیا ہے کہ وسوسے حد سے تجاوز کر چکے ہیں اور یہاں تک جا پہنچے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات میں بھی ہونے لگے ہیں جو اللہ تعالی کے لائق نہیں تو یہ شیطان کا ورغلانا اور اکسانا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
( اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ائے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقینا وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ) فصلت / 36
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ کرام نے ان وسوسوں کی شکایت کی جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی تو صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ائے اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی چیز پاتے ہیں جن کا زبان پر لانا بہت مشکل ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ ایسا پاتے ہیں تو صحابہ نے جواب دیا جی ہاں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی صریح ایمان ہے ۔
اسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے حدیث نمبر 132
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (یہی صریح ایمان ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ان وسوسوں کی کلام نہ کرنا اور انہیں زبان پر نہ لانا اور اسے برا جاننا یہی صریح ایمان ہے ۔
بے شک اسے بہت برا سمجھنا اور اس کو زبان پر لانے سے خوف زدہ ہونا چہ جائکہ اس کا اعتقاد رکھنا تو یہ حالت اس کی ہوتی ہے جس کا ایمان کامل اور محقق ہو اور اس سے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہوں ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ :
شیطان وسوسے اسے ڈالتا ہے جس کے گمراہ کرنے سے وہ عاجز آچکا ہو تو اسے وسوسے میں ڈالتا ہے تا کہ وہ اپنے عاجز آنے کا بدلہ چکا سکے اور کافر کو تو جس طرح چاہے اور اس سے کھیلتا پھرے اور اسے وسوسے نہیں ڈالتا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے اس کے ساتھ کرتا ہے ۔
اور اس بناء پر حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ وسوسے کا سبب خالص ایمان ہے یا پھر وسوسہ خالص ایمان کی نشانی ہے ۔ انتہی دیکھیں سوال نمبر 12315
تو پھر اسے نا پسند اور بغض کرنا اور دل کا اس سے بھاگنا یہی خالص اور صریح ایمان ہے اور ہر وہ شخص جو کہ اللہ تعالی کے ذکر اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسے وسوسہ آنا ضروری چیز ہے لہذا بندے کو صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا چاہۓ اور اسے نماز اور ذکر واذکار پر ملازمت اور ہمیشگی کرنا چاہۓ اور تنگ دل نہیں ہونا چاہۓ کیونکہ ان چیزوں پر ہمیشگی اور ملازمت سے شیطان کے ہتھکنڈے دور ہو جائیں گے ۔
( بے شک شیطان کے ہتھکنڈے اور تدبیریں کمزور ہیں )
جب بھی بندہ دلی طور پر اللہ تعالی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے کاموں کے وسوسے آنے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ شیطان اس ڈاکو کی طرح ہے جو کہ راستے میں بیٹھا ہو تو جب بھی بندہ اللہ تعالی کی طرف چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ شیطان اس کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اسی لۓ سلف میں سے کسی کو یہ کہا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں وسوسے نہیں آتے تو انہوں نے جواب دیا وہ سچے ہیں تو شیطان خراب گھر میں جا کر کیا کرے گا ۔شیخ الاسلام کی بات ختم ہوئی فتاوی شیخ الاسلام جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 608
علاج :
1- جب آپ ان وسوسوں کو محسوس کریں تو یہ کہیں میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں کسی کے پاس شیطان آتا اور اسے کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالی نے تو شیطان کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے تو جب تم میں سے کوئی اس طرح کی بات پائے تو یہ پڑھے ( آمنت باللہ ورسلہ ) میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کیونکہ یہ اس سے وسوسہ ختم کر دے گا )
مسند احمد حدیث نمبر ( 25671) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں حسن کہا ہے حدیث نمبر 116
2- اس معاملے میں سوچنے سے حتی الامکان اعراض کرنے اور بچنے کی کوشش کرے اور کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اسے اس سے ہٹا دے ۔
اور آخر میں ہم آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرو اور اس سے مدد طلب کرو اور سب کو چھوڑ کر اسی کی طرف متوجہ رہو اور اس سے موت تک کے لۓ ثابت قدمی طلب کرتے رہو اور یہ کہ وہ آپ کا خاتمہ اچھے کام پر کرے ۔
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:25778