الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی سجدہ سہو سے متعلقہ تمام احادیث کو اکٹھا کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سجدہ سہو درج ذیل اسباب کی بنا پر کیا جاتا ہے:
01. نماز میں اضافہ ہو جائے، جیسے انسان کوئی سجدہ زیادہ کر لے، یا کوئی رکعت زیادہ پڑھ لے وغیرہ۔
02. نماز میں کمی ہو جائے، جیسے انسان نماز کا کوئی رکن یا واجب چھوڑ دے۔
03. انسان کو نماز میں شک ہو جائے، جیسے شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں وغیرہ۔
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز میں اضافہ یا کمی کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہے ، کیوں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت کی ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد (صحيح مسلم، الأقضية:1718)
جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے وہ مردود (باطل) ہے۔
سجدہ سہو کرنے کا طریقہ:
سجدہ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان تشہد کی حالت میں سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے پھر سلام پھیر دے، یا سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، دونوں طرح جائز ہے، لیکن یاد رہے کہ سجدہ سہو کے بعد دوبارہ تشہد کے لیے نہیں بیٹھا جائے گا بلکہ فورا سلام پھیر دیا جائے گا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدہ سہو کرنے کے بعد دوبارہ تشہد کے لیے بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔
سجدہ سہو کے لیے کوئی دعا خاص نہیں ہے بلکہ وہی دعائیں پڑھی جائیں گی جو نماز میں سجدہ کی حالت میں پڑھی جاتی ہیں۔
افضل یہ ہے کہ اگر انسان نے نماز میں اضافہ کر دیا ہے تو سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد کرے،اسی طرح اگر اسے نماز میں شک ہو جائے اور ایک گمان غالب ہو پھر بھی سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد کرے ۔
اگر نماز میں کمی ہو گئی ہے یا شک ہو گیا ہے اور دو پہلوؤں میں کوئی ایک پہلو غالب نہیں ہے تو سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلےکرے۔
اس بات کی دلیل کہ نماز میں اضافہ کرنے کی صورت میں سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائےگا:
سيدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ايک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں، صحابہ کرام نے آپ سے پوچھا: کیا نماز کی رکعات بڑھا دی گئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا ہوا؟ تو صحابی نے عرض کیا کہ آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔ (صحيح البخاري، ما جاء في السهو: 1226، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 572)
اس بات کی دلیل کہ اگر نماز میں شک ہو جائے اور ایک گمان غالب ہو تو سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد کرے گا:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ (صحيح البخاري، الصلاة: 401)
جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ صحیح حالت معلوم کرنے کی کوشش کرے، پھراسی پر اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے، اس کے بعد دو سجدے کرے۔
اس بات کی دلیل کہ اگر نماز میں شک ہو جائے اور کوئی گمان غالب نہ ہو تو سجدہ سہو سلام پھیرنےسے پہلے کیا جائے گا:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 571)
جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے (تین یقینی ہیں تو چوتھی پڑھ لے) پھر سلام سے پہلے دو سجدے کر لے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت (چھ رکعتیں) کر دیں گے اور اگر اس نے چار کی تکمیل کر لی تھی تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے۔‘‘
اس بات کی دلیل کہ اگر نماز میں کمی ہو جائے تو سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جائے گا:
سيدنا عبداللہ ابن بحینہ ؓ بيان كرتے ہیں کہ نبی نے ایک دن صحابہ کرام کو نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ (صحیح البخاری، الأذان: 829)
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ