الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر گھر میں تھوڑی بہت رنجشیں، غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کرنے اور سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک عقل مند انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ذرا سی بات پر اتنا غصے میں آ جائے کہ منہ سے طلاق کا لفظ نکال کر خاوند اور بیوی کے مقدس رشتے کو ختم کردے۔
اس لیے اگر خاوند اور بیوی کا آپس میں کسی بات پر جھگڑا ہو جائے تو اسے آپس میں جل کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یا دونوں خاندانوں کے افراد مل کر اس پریشانی کا حل نکالیں۔ جب تمام کوششوں کے باوجود رشتہ نبھانا ممکن نہ ہو تو اسلام نے خاوند کو طلاق کے ذریعے اس رشتے کو ختم کرنے کا اختیار دیا ہے۔
آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی، اور دوبارہ فون کال کر کے اسی ایک طلاق کو یاد کروانا مقصد تھا، دوسری طلاق کی نیت نہیں تھی، تو ایک طلاق ہی واقع ہوئی ہے،كيوں کہ آپ نے فون کر کے سابقہ طلاق ہی یاد کروائی ہے، آپ کا دوسری طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا۔
لہذا آپ کی بیوی کو ایک طلاق ہو چکی ہے اور وہ عدت میں ہے، آپ عدت کے دوران بیوی سے رجوع کر سکتے ہیں۔
یاد رہے! عدت کی مدت تین حیض ہے، یعنی طلاق کے بعد اگر عورت کو تین مرتبہ حیض آ جائے اور وہ تیسرے حیض سے پاک ہو جائے تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ .(البقرة: 228)
اور وہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔
اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﱠ. (الطلاق: 4)
اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی