سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا خاوند کے علاوہ کوئی اور آدمی طلاق دے سکتا ہے؟

  • 26389
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-30
  • مشاہدات : 346

سوال

ایک لڑکی کے بھائی نے اسے اس بات پر راضی کر لیا کہ اسے طلاق دے دی گئی ہے، لیکن عملی طور پر طلاق نہیں ہوئی ہے۔ لڑکی اپنے شوہر کی بات نہیں سن رہی تھی اور اپنے بھائی کی ہر بات پر یقین رکھتی تھی۔ اس جعلی طلاق اور اس کے بھائی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام  نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے۔ بعض حالتوں میں عدالت کے ذریعے بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔
لیکن خاوند کے علاوہ لڑکی کے بھائی یا کسی اور شخص کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ وہ میاں بیوی میں جدائی کروا دے۔
ارشاد باری تعالی ہے: 
ﱡالطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﱠ (البقرة: 229)
یہ طلاق (رجعی) دوبار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
مزید فرمایا:
ﱡالرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﱠ (النساء: 34)
مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔
جب مرد عورتوں پر نگران ہیں تو شریعت نے طلاق کا اختیار بھی مرد کو ہی دیا ہے۔
اس لئے اگر خاوند نے طلاق نہیں دی، تو بھائی کے اپنی بہن (بیوی) کو قائل کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہو گی اور وہ عورت اپنے خاوند کے نکاح میں ہی رہے گی جب تک وہ خود اسے طلاق نہ دے دے۔
بیوی کے بھائی نے اپنی بہن سے جھوٹ بولا، اسے بہکایا اور شوہر کے خلاف بد ظن کیا، یہ تمام کبیرہ گناہ اور شیطانی اعمال ہیں، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امرَأَةً عَلَى زَوجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ .(سنن أبي داود، الطلاق: 2175)(صحیح)

وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف ابھارا۔
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ قَالَ فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ : نِعْمَ أَنْتَ .(صحيح مسلم، صفة القيامة والجنة والنار: 2813)
ابلیس اپنا تخت پانى پر لگاتا ہے، پھر اپنے لشكر روانہ كرتا ہے، ابلیس کا قریبی ترین وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فسادی ہو، کوئی آکر رپورٹ دیتا ہے کہ ميں نے آج فلاں فلاں كام كيا ہے، تو ابلیس كہتا ہے تو  نے كچھ بھی نہيں كيا، نبى صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمايا: پھر ان ميں سے ايک آ كر كہتا ہے: ميں فلاں شخص کو طرح طرح سے ورغلاتا رہا حتى كہ میں نے اس كے اور اس كى بيوى كے درميان جدائى ڈال دى، نبى کریم صلى اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا: ابلیس اسے اپنے قریب کرتا ہے اور  كہتا ہے ہاں! تو نے (قابل ذکر)  كام كيا ہے۔
اس لیے بیوی کے بھائی پر لازم ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے گناہ پر سچی توبہ کرے، اپنے کیے پر نادم ہو اور آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا پختہ اردہ کرے، اس پر یہ بھی  واجب ہے کہ وہ حق تلفی اور الزام تراشی کرنے پر اپنے بہنوئی سے معافی مانگے۔


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ عبدالحلیم بلال حفظہ اللہ
04. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ