السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اپریل کے پرچہ اہل حدیث میں پوچھا گیا کہ موجودہ زمانہ کے اسکول اور کالج میں صدقہ فطر کے مال سے امداد کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب دیا گیا ہے کہ طلباء غریب مسکین ہوں تو جائز ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کہ مصارف بیت المال س اسکول اور کالج خارج ہیں۔ دیگر یہ کہ جن مدارس عربیہ میں خالص قرآن وحدیث ہی کی تعلیم ہوتی ہو ایسے مدارس عربیہ میں مد بیت المال سے جواز امداد کے لئے مدارس عربیہ کو کھینچ تان کر فی سبیل اللہ میں داخل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر سرکاری اسکول اور کالج میں ماسوائے قرآن وحدیث کے تعلیم ہوتی ہے۔ وہاں اس مد سے امداد کرنے کاجواز بالکل فہم ناقص سے بالاتر ہے۔ (قطب الدین راجشاہی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسکول کی امداد اور چیز ہے۔ اور غریب طالب علم کی امداد اور ہے۔ ہمارے فتویٰ کا تعلق غریب طالب علموں کی ضروریات سے ہے۔ ان کو مدد دینا اس آیت کے زیل میں آسکتا ہے۔ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ﴿٦٠﴾سورة التوبة ۔ باقی رہا ان کا تعلیم حاصل کرکے دنیاوی مشاغل میں لگ جانا اس کی زمہ داری ہم پر نہیں عربی کے بعض طالب علم بعد فراغت شرک وبدعت پھیلانے میں لگ جاتے ہیں۔ ا س کی زمہ داری زکواۃ ہند پر نہیں ہے۔ اس کافرض شروع میں صرف اتنا ہے کہ پہلے وہ دیکھ لیں کہ اس آیت کے مصداق ہیں کہ نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب