السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بولی کی کمیٹی کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے ، ایک آدمی ستر ہزار کی پچیس ہزار میں بولی لگا کر اٹھا لیتا ہے ، کیا ایسا طریقہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ صورت واضح سود اور قمار کی شکل ہے۔ اس سے بچاؤ ہر صورت ضروری ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ نوٹ سونے کابدل ہے۔ اس لیے اس کی بیع نقد کمی پیشی کے ساتھ اور ادھار ہر صورت منع ہے۔ چاہے برابر برابر ہو یا کمی پیشی کے ساتھ۔ لہذا بولی کی کمیٹی ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب