سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(251) قربانی اور عقیقہ کی شرعی حیثیت

  • 26347
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1332

سوال

(251) قربانی اور عقیقہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 

پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے جواب میں۔

٭ قربانی کے اثبات میں تحقیقی مقالہ

٭ قربانی بالاجماع مشروع عمل ہے۔

پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں:

مغالطہ نمبر 2۔۔: اس نظریہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیقہ کو منسوخ کہنے) کی وجہ سے عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے متعلق کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پروفیسر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کو قربانی کی مشروعیت کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہو تو اور بات ہے کہ تحقیق گزیدہ حضرات نے انکار سنت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسلام کے ان مسائل و احکام میں بھی تشکیک پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ جن میں مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے لے کر آج تک اتفاق موجود ہے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملت اسلامیہ کی صحیح خیر خواہی بس یہ رہ گئی ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طریقہ سے اختلافی بنا دیا جائے اور دین کا کوئی مسئلہ ایسا نہ چھوڑا جائے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہو کہ سب مسلمانوں کے نزدیک یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ خوش قسمتی سے قربانی کا مسئلہ بھی انہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔

1ھ کی پہلی عید الاضحیٰ سے لے کر آج تک مسلمان اس پر متفق چلے آ رہے ہیں۔

اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع، مسنون اور شعار اسلام میں سے ہونے میں پوری امت متفق ہے۔

اس میں ائمہ اربعہ اور فقہاء محدثین متفق ہیں، مجتہدین متفق نظر آتے ہیں، شیعہ اور سنی متفق ملتے ہیں، حتی کہ آج کے تمام اسلامی فرقے بھی اس کی مشروعیت پر اتفاق رکھتے ہیں۔

چند تصریحات ملاحظہ فرمائیے:

اقوال ائمہ نمبر 1: علامہ یحییٰ بن محمد ابن ہبیرہ متوفی 560ھ تصریح فرماتے ہیں: (واتفقوا ان الاضحية مشروعة باصل الشرع الافصاح علي مذاهب الاربعة) کہ ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ اصل شرع کی رو سے قربانی مشروع عمل ہے۔

نمبر 2: شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 رقم طراز ہیں: (ولا خلاف في كونها من شرائع الدين۔ الخ) (فتح الباري شرح صحيح البخاري: جلد نمبر 10 ص نمبر 2) ائمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شرائع دین میں سے ہے۔

نمبر 3: امام محمد بن شوکانی رحمہ اللہ متوفی 1250ھ لکھتے ہیں: (ولا خلاف في كونها من شرائع الدين) (نيل الاوطار: جلد نمبر 5 ص 126) کہ اس بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شرائع دین میں سے ہے۔

نمبر 4: شیخ اسماعیل انصاری فرماتے ہیں: (ولا خلاف انها من شعار الدين) (الامام شرح عمدة الاحكام: جلد نمبر 2 ص نمبر 170) ائمہ دین کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شعار دین میں سے ہے۔

نمبر 5: علامہ عبدالرحمان جزائری لکھتے ہیں: تمام مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پر اجماع ہے۔ (كتاب الفقه علي المذاهب الاربعه: جلد نمبر 1 ص نمبر 716)

نمبر 6: سید محمد سابق مصری لکھتے ہیں: یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی اور تمام مسلمان قربانی کرتے رہے ہیں اور اس کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہو چکا ہے۔ (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص 396، صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص 883 و صحيح مسلم: جلد نمبر 2 ص 155)

ان تصریحات سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ قربانی سنت مؤکدہ، شعار دین اور شرائع اسلام میں سے ہے اور 1ھ سے لے کر آج تک کسی اہل علم کو اس کی مشروعیت کے بارے میں نہ صرف کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اس کی مشروعیت پر سب کا اتفاق ہے۔ والحمدلله علي ذالك

مغالطہ نمبر 3: پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ امام ابن حزم نے اعلان کیا ہے کہ قربانی کے متعلق تمام احادیث ضعیف ہیں۔

جواب: یہ ابن حزم، ایسے جلیل القدر امام اور محدث پر صریح بہتان عظیم ہے کہ انہوں نے قربانی کے متعلق تمام احادیث کو ضعیف کہہ دیا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب محلی ابن حزم کی "کتاب الاضاحی" پروفیسر صاحب کے اس ادعا کی تکذیب اور تردید کے لئے شاہد عدل آج بھی موجود ہے۔ المحلي کتاب الاضاحی جلد نمبر 7 ص نمبر 355 تا 388 اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ آپ نے ان چونتیس صفحات میں اپنے مخصوص علمی اسلوب اور محدثانہ انداز میں قربانی کے سترہ احکام و مسائل پر زوردار بحث فرمائی ہے۔

اس علمی بحث میں آپ نے قربانی کے بعض مسائل میں ائمہ اربعہ اور محدثین کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا مؤقف علیحدہ اختیار کیا ہے اور اپنے مؤقف کے اثبات میں جا بجا احادیث صحیحہ سے استدلال فرمایا ہے اور پوری بحث قابل قدر اور دیدنی ہے۔

چند مثالیں یہ ہیں:

نمبر 1 مسئلہ: احناف کے ہاں کھیرے مینڈھے کی طرح کھیرے بکرے کی قربانی جائز ہے اور جمہور علماء کے نزدیک مینڈھے اور بکرے کا دو دانتا ہونا ضروری ہے، تاہم دو دانتا نہ ملنے پر جمہور صرف کھیرے مینڈھے کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں۔

کھیرے بکرے کی قربانی کے قائل نہیں۔ جبکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک بوقت مجبوری بھی کھیرا جانور قربانی کرنا جائز نہیں بکرا اور نہ مینڈھا، وہ دو دانت جانور کی شرط عائد کرتے ہیں۔

چنانچہ احناف اور جمہور کے خلاف حجت قائم کرتے ہوئے صحیحین کی درج ذیل احادیث صحیحہ سے استدلال کرتے ہیں۔

براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خالو ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے اپنی قربانی ذبح کر ڈالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک قربانی اور ذبح کرو تو میرے خالو نے عرض کیا کہ حضرت اب تو میرے پاس ایک کھیری پیٹھیا ہے۔ جو دو بکریوں سے بڑھ کر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو وہی ذبح کر دو، لیکن کھیرا مینڈھا آپ کے بعد کسی اور کے لئے کفایت نہیں کرے گا۔ (فقه السنه: جلد نمبر 3 ص 274)

مسئلہ نمبر 4: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قربانی کو واجب کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کرے وہ ایک اور قربانی ذبح کرے۔

امام ابن حزم امام ابو حنیفہ کے اس استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے نفس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص 373 صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص 832)

مسئلہ نمبر5: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حاجی اور مسافر کو قربانی کی چھوٹ دیتے ہیں۔ جبکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ مسافر اور حاجی کے لئے بھی قربانی کو سنت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر نکیر کرتے ہوئے اپنے مؤقف کے ثبوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث لائے ہیں جو صحیح بخاری میں مروی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم حجۃ الوداع سے واپسی پر سرف کے مقام پر فروکش تھیں تو میرے پاس گائے کا ڈھیر سارا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا کہ گوشت کون سا ہے؟ تو لانے والوں نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ (محليٰ: جلد نمبر 7 ص 357)

لہذا ثابت ہوا کہ حاجی اور مسافر کے لئے بھی قربانی سنت ہے۔ اسی طرح اور مسائل میں بہت سی احادیث لائے ہیں جنہیں اختصار کے پیش نظر قلم زد کیا جاتا ہے۔

غرض یہ کہ ان پانچ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ پروفیسر صاحب کے اس ادعا میں پشہ کے پر کے برابر بھی صداقت نہیں کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے قربانی کے متعلق ان پانچ احادیث کو ضعیف کہا ہے، جن سے قائلین وجوب نے وجوب قربانی پر استدلال کیا ہے اور آپ ان احادیث کو ضعیف کہنے میں متفرد بھی نہیں ہیں۔ دوسرے تمام محدثین احادیث اور ائمہ جرح و تعدیل نے بھی ان احادیث کو یا تو ضعیف قرار دیا ہے یا پھر وجوب کی استدلال سے اختلاف کیا ہے۔ ملاحظہ ہو فتح الباری: جلد نمبر 10 ص 2،3۔ سبل السلام: جلد نمبر 4 ص 61۔ نیل الاوطار: جلد نمبر 5 ص نمبر 162۔ ویسے امام شوکانی رحمہ اللہ کا اپنا رجحان قربانی کے وجوب کی طرف ہے، تفصیل آگے اپنے مقام پر آ رہی ہے۔

وضاحت:

ان پانچ احادیث کو ضعیف کہنے کا یہ مطلب لینا صحیح نہیں کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ سرے سے ہی قربانی کے قائل نہیں، جیسا کہ پروفیسر صاحب نے قارئین کو یہ غلط تاثر دینے کی ناکام کوشش فرمائی ہے۔ کیونکہ امام موصوف نہ صرف قربانی کو سنت مانتے ہیں، بلکہ ان کے نزدیک سنت حسنہ ہے۔ فرماتے ہیں: ألاضحية سنة حسنة (محلی شروع کتاب الاضاحی: جلد نمبر 7 ص 355) کہ قربانی سنت حسنہ، یعنی سنت مؤکدہ ہے۔ اور جمہور علماء کا بھی یہی مذہب ہے، جیسا کہ نووی جلد نمبر 2 ص 153، عمدۃ القاری للعینی الحنفی جلد نمبر 12 ص 144 اور فتح الباری جلد نمبر 10 ص 2،3 پر مرقوم ہے یعنی جمہور اور امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں صرف لفظی فرق ہے۔ جمہور قربانی کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں جب کہ امام صاحب اسی مفہوم کو سنت حسنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔

ایک غلطی کا ازالہ:

پروفیسر صاحب نے امام ابن حزم رحمہ اللہ کے حوالہ سے حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کو گمنام شخصیت لکھا ہے۔ جو صحیح نہیں کیونکہ مخنف رضی اللہ عنہ صحابی ہیں، لہذا امام ابن حزم رحمہ اللہ ایسا راسخ العلم اور وسیع المطالعہ شخص انہیں کس طرح گم نام شخصیت لکھ سکتا ہے۔ اصل واقع یہ ہے کہ آپ نے ان کے بیٹے حبیب بن مخنف کو گم نام شخصیت لکھا ہے۔ لہذا پروفیسر صاحب اور ان کے فاضل مترجم ایم اشرف صاحب اپنا ریکارڈ درست کر لیں تاکہ انہیں پھر کبھی یہ سبکی نہ ہو، اسی طرح مولوی محمد صدیق ہزاروی بریلوی اپنے مضمون کی اصلاح فرما لیں۔ اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی گستاخی پر ندامت اور توبہ کا اعلان کریں۔ ورنہ عنداللہ تعالیٰ مواخذہ سے بچ نہ سکیں گے۔

مغالطہ نمبر 6: ان فقہاء نے اپنے مؤقف کی تائید میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے عملی کردار سے بھی مدد لی ہے۔ ان کے نزدیک اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قربانی کا حکم فرمایا ہوتا تو وہ کبھی اس حکم کی تعمیل میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ ہمارے فاضل پروفیسر صاحب نے اپنے اس مغالطہ میں دو دعوے کئے ہیں (1) کچھ فقہاء ایسے بھی ہیں جو قربانی کے قائل نہیں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قربانی کا حکم نہیں دیا تھا۔

جواب: دعویٰ اول:

ان کا پہلا دعویٰ کہ بعض فقہاء قربانی کے قائل نہیں نرا مغالطہ اور سراسر خلاف واقع ہے، کیونکہ ہمارے علم و مطالعہ کے مطابق تمام فقہائے اسلام قربانی کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ اگر ان کو اپنے اس ادعائے پر ناز ہے تو پھر ہمیں بھی بتلائیں کہ وہ فقہاء کون ہیں؟ کتنے ہیں؟ سنی ہیں یا شیعہ؟ سنی ہیں تو فقہائے اہل حدیث میں سے ہیں یا فقہائے مذاہب اربعہ میں شمار ہوتے ہیں اور اگر شیعہ ہیں تو کون سے ہیں؟ ان کا علمی چوکٹھا کیسا ہے؟ اور ان کا وہ کون سا فقہی سرمایہ ہے جس میں انہوں نے قربانی کی مشروعیت سے انکار یا اختلاف کیا ہے؟ تاکہ ہم بھی ان کی تحقیق سے روشناس ہو سکیں، مگر

ہم جانتے ہیں تم کو، تمہاری زبان کو

وعدوں ہی میں گزارو گے موسم بہار کا

یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اس کا تفصیلی جواب دوسرے دعویٰ کے جواب کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیے۔

جواب: دعویٰ ثانی:

یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قربانی کا حکم نہیں دیا تھا متعدد وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔

اول اس لئے کہ یہ دعویٰ قرآن مجید کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔ ثانی اس لئے کہ ان احادیث صحیحہ محکمہ کے خلاف ہے جو کتب صحاح میں صحیح اور متصل اسانید کے ساتھ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، جو یہ تصریح کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا صحابہ کو حکم دیا۔ خود مسلسل دس سال سفر و حضر میں اس پر عمل فرمایا اور امت میں اس کو سنت اسلام کی حیثیت سے جاری فرمایا۔

ثالث یہ دعویٰ ان احادیث مرفوعہ متصلہ کے بھی خلاف ہے جو عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں قربانی کے عام رواج اور شیوع پر دلالت کرتی ہیں۔ اب ان تینوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

قربانی اور قرآن مجید

قرآن مجید میں جس مخصوص انداز میں جہاں دوسرے مسائل زندگی کا بیان موجود ہے۔ وہاں قربانی کی مشروعیت، تاریخ اور تفصیل بھی موجود ہے۔ چنانچہ سورہ حج میں ہے:

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ﴾

"اور ہم نے ہر ایک امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مویشیوں پر اس کا نام ذکر کریں۔"

مفسرین کی تصریحات:

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ 606ھ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے لے کر مابعد کی تمام امتوں میں قربانی مشروع چلی آ رہی ہے۔ اور منسک زبر کے ساتھ قربانی کے معنی میں ہے۔ (تفسير كبير: جلد نمبر 6 ص 232)

امام ابن کثیر 44ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اس کے نام قربانیاں ذبح کرنا اور خون بہانا تمام امتوں میں مشروع عمل چلا آ رہا ہے۔ (تفسير ابن كثير: جلد نمبر 3 ص 221)

امام شوکانی رحمہ اللہ 1250ھ لکھتے ہیں:

(المنسك ههنا المصدر من نسك ينسك اذا ذبح القربان۔۔۔ والمعني و جعلنا لكل اهل دين من الاديان ذبحا يذبحونه و دما يريقونه) (فتح القدير جلد نمبر 3 ص 452)

"آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمام اہل ادیان پر قربانی ٹھہرائی جو وہ ذبح کرتے تھے اور خون بہاتے تھے۔"

امام شوکانی رحمہ اللہ نے بالکل تصریح کر دی کہ یہاں منسک کے معنی قربانی ہی ہیں۔

شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: جتنے مویشی ہیں ان کا حق یہی ہے کہ کام لے لیجئے، پھر کعبے کے پاس لے جا کر نیاز چڑھا دیجئے۔ یہ بات دشوار ہے تو یہاں بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور ذبح کیا۔ یہ نشانی ہے کہ اللہ کی نیاز کعبے کو چڑھایا۔ دور ہو یا نزدیک۔

شاہ صاحب نے اس مختصر سی تفسیر میں قربانی کی پوری حقیقت سمو کر رکھ دی ہے۔ (موضع القرآن: سورة الحج)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ 1176ھ قربانی کے اسرار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"یہ قربانی حاجیوں سے عملی تشابہ کے لئے ہی تو ہے۔"

(يوم الاضحيٰ فيه تشبه بالحاج و تعرض للنفحات الله تعاليٰ المعدة لهم۔۔۔) (حجة الله البالغة: جلد نمبر 1 ص 99)

مکہ مکرمہ سے باہر دوسرے اکناف کے مسلمانوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ حاجیوں سے مشابہت پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فیضان سے مستفیض ہوں، جو ان کے لئے تیار فرمایا گیا ہے۔ قربانی کا یہ طریقہ جس طرح پہلی امتوں کے لئے ہے۔

اسی طرح ہماری شریعت محمدی میں بھی مقرر کیا گیا ہے۔

نمبر 2: ﴿لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾ قُلْ أَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿١٦٤﴾)) (الانعام: 163، 164) "کہہ دیجئے میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف رب العالمین کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں سر اطاعت جھکانے والا ہوں۔"

امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ ان آیات مقدسہ میں یہ حکم دے رہا ہے کہ مشرکین پر واضح کر دیں کہ تم جو غیراللہ کی نماز پڑھتے ہو اور غیراللہ کے نام قربانی کرتے ہو میں اس طریق عبادت کے سخت مخالف ہوں ۔۔۔ میری نماز بھی خالصة لوجه الله  یعنی اللہ کے لئے ہے اور میری قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے۔ (تفسير ابن كثير: جلد نمبر 2 ص 191 و فتح القدير: جلد نمبر 2 ص 185)

نمبر 3: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ (الکوثر: 2) "پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔"

تقریباً تمام قدیم و جدید مفسرین کے نزدیک انْحَرْ سے مراد دس ذی الحجہ کی قربانی ہے۔ چنانچہ مفسر القرآن فخر الدین رازی شافعی رحمہ اللہ متوفی 606ھ، امام ابن کثیر المتوفی 774ھ، مفسر شوکانی رحمہ اللہ المتوفی 1250ھ، مفسر محمود آلوسی حنفیؒ المتوفی 1270ھ، مفسر قرطبی مالکی المتوفی 671ھ، نواب سید صدیق حسن خان اور شیخ احمد مراغی المتوفی 1945ء وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔

ہمیں اعتراف ہے کہ مفسرین نے اس کے علاوہ اور معنی بھی کئے ہیں، لیکن وہ صحیح نہیں ہیں۔ ان دلائل قاطعہ اور نصوص ساطعہ سے نہ صرف یہ ثابت ہوا کہ قربانی بلاشبہ مشروع عمل اور شعار اسلام میں سے ہے۔ بلکہ مسئلہ قربانی کے منکرین کے اس مغالطہ کی قلعی ابھی کھل گئی کہ قرآن مجید میں جس قربانی کا تذکرہ ہے وہ تو صرف مکہ میں منیٰ کے میدان میں حاجی کے ساتھ خاص ہے۔ اب یہاں پر تو کوئی حج وغیرہ کا ذکر نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے ساری امت کو قربانی ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

لہذا عید الاضحیٰ کی قربانی کا انکار اصل میں قرآن نافہمی کا اقرار ہے۔ اعاذنا الله منه

قربانی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و تعامل:

قرآن مجید کی تین آیات مقدسہ سے قربانی کا ثبوت بہم پہنچانے کے بعد اب ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے کیا کچھ ارشادات فرمائے ہیں۔

یوں تو مسئلہ قربانی اور اس کے مفصل احکام تفسیر و حدیث کی کتابوں میں درج ذیل اُنیس صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا براء، سیدنا زید بن ارقم، سیدہ عائشہ صدیقہ، سیدہ ام سلمہ، سیدنا ابن عباس، سیدنا جابر بن عبداللہ، سیدنا جبیر، حضرت علی، سیدنا ابو درداء، سیدنا مخنف بن سلیم، سیدنا بریدہ، سیدنا ابو رافع، سیدنا انس، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ثوبان، سیدنا ابو سعید خدری، سیدنا جندب، سیدنا عویمر بن اشقر وغیرھم رضی اللہ عنہم تاہم اختصار کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف دس فرامین مقدسہ حوالہ قرطاس کئے جاتے ہیں پڑھئے اور منکرین حدیث کے چیمپئن پروفیسر رفیع اللہ شہاب صاحب کو ان کی ہمہ دانی کی داد دیجئے۔

نمبر 1: (عن زيد بن ارقم قال قال اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم يا رسول الله ما هذه الاضاحي قال سنة ابيكم ابراهيم عليه السلام۔الخ) (رواه احمد و ابن ماجه تفسير ابن كثير جلد نمبر 3 ص 221 و مشكوٰة ص 129 نيل الاوطار جلد نمبر 5 ص 123)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہیں۔

نمبر 2: (عن عائشة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ما عمل آدمي من عمل يوم النحر احب الي الله من اهراق الدم الخ۔ وهذا حديث حسن غريب) (تحفة الاحوذي شرح جامع ترمذي: جلد نمبر 2 ص 352 و ابن ماجة: ص 233)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قربانی کے دن کسی شخص کا کوئی عمل اللہ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ خون بہائے، یعنی اس دن قربانی ہی افضل عمل ہے۔"

نمبر 3: (عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا) (ابن ماجة: ص 232 و رواه احمد، نيل الاوطار: جلد نمبر 5 ص 123)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صاحب حیثیت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔"

نمبر 4: حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ ارشاد فرمایا:

(ان اول ما نبذء به في يومنا هذا ان نصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل هذا فقد اصاب سنتنا۔ الخ) (صحيح بخاري باب الذبح بعد الصلوة: جلد نمبر 2 ص 834 و صحيح مسلم: جلد نمبر 2 ص 154 و محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص 373)

"آج کے دن ہم پہلے نماز عید پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں، لہذا جس نے اس طریقے کے موافق عمل کیا اس نے ہماری سنت پا لی۔"

نمبر 5: حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من ذبح قبل الصلوة فليعد) کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی وہ دوبارہ قربانی کرے۔" (محليٰ ابن حزم ج 7 ص 357)

نمبر 6: حضرت جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فليعد مكانها اُخري) کہ جس نے نماز عید سے قبل قربانی کر لی ہو وہ اس قربانی کے بدلے دوسری قربانی کرے۔ (رواه البخاري باب ذبح بعد الصلوة جلد نمبر 2 ص 834)

نمبر 7: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک سال قحط کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا، اگلے سال جب ہم نے پوچھا تو فرمایا: (كلوا واطعموا وادخروا)۔ (صحيح بخاري باب ما يوكل من لحوما لاضاحي وما ينزود ج 2 ص 835) "کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کر لو۔" (بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ابتداء میں صحابہ کی حالت نازک تھی۔ کئی کئی دن فاقے پڑ جاتے تھے، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رواج دیا تھا۔ لیکن یہ بات فاقوں والی محل نظر ہے ذخیرہ کرنے کی اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ اب فاقوں والی بات نہیں رہی اس سے پہلی امتوں میں قربانی رائج تھی، کیا وہ سب بھوکوں مر رہے تھے۔ (زبیدی)

اور مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے، (مؤطا ص 496) باب اذخار لحوم الاضاحي

نمبر 8: (ان عويمر ابن اشقر ذبح ضحيته قبل ان يغدو و يوم الأضحيٰ و انه ذكر ذلك لرسول الله صلي الله عليه وسلم فامره ان يعود بضحية اُخري) (مؤطا امام مالك ص 495، باب النهي عن ذبح الاضحية قبل انصراف الامام)

جناب عویمر رضی اللہ عنہ نے عید قربان کے دن نماز عید کو جانے سے قبل قربانی کر لی اور پھر اس بات کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔

نمبر 9: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

(ألاضحيٰ يوم تضحون) (تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 37)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے الفاظ الاضحيٰ يوم الناس ہیں۔( تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 71)  الاضحيٰ (عید قربان) وہ دن ہے جس دن لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔

نمبر 10: (عن حنش قال رأيت عليا رضي الله عنه يضحي بكبشين فقلت له ما هذا فقال ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اوصاني ان اضحي عنه فانا اُضحي عنه) (ابو داؤد مع شرح عون المعبود جلد 3 ص نمبر 3 ص 5 تحفة الاحوذي جلد نمبر 2 ص 354)

حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی دیتا رہوں، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی دیا کرتا ہوں۔

قربانی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا دس سالہ عمل مبارک

نمبر 1: (عن انس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم انكفأ الي كبشين اقرنين املحين فذبحهما بيده) (صحيح بخاري جلد نمبر 2 ص 833)

"حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز عید کے بعد) چتکبرے بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی طرف لپکے اور ان کو اپنے ہاتھ سے قربان کیا۔"

نمبر 2: (عن ابن عمر قال أقام رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي) (تحفة الاحوذي جلد نمبر 2 ص 359)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔"

نمبر 3: (عن نافع ان ابن عمر اخبره قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يذبح و ينحر بالمصلي) (صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص 833، عون المعبود جلد نمبر 3 ص 56 تا 58 و ابن ماجة: ص 235)

"نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں ہی ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔"

نمبر 4: (عن ابي رافع ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان اذا ضحي اشتري كبشين سمينين اقرنين املحين ثم يقول هذا عن محمد و آل محمد فيعطيهما جميعا للمساكين و ياكل هو واهله منهما) (رواه احمد و ابن ماجة و ابن كثير جلد نمبر 3 ص 222)

"ابو رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی دیا کرتے تھے تو دو موٹے تازے سینگوں والے چتکبرے دنبے خریدا کرتے تھے۔ جب نماز اور خطبہ سے فارغ ہو جاتے تو ایک دنبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا جسے چھری سے خود ذبح کرتے، پھر دوسرا پیش کیا جاتا، اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ذبح کرتے اور فرماتے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔" تو ان سے خود بھی کھاتے اور گھر والے بھی کھاتے اور مسکینوں کو بھی کھلاتے۔"

نمبر 5: (عن عقبة ابن عامر جهني قال قسم النبي صلي الله عليه وسلم بين اصحابه ضحايا) (صحيح بخاري جلد نمبر 2 ص 832)

"عقبہ بن عامر جہنی سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم فرمائے۔"

نمبر 6: (عن عائشة رضي الله عنها ضحيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم عن ازواجه بالبقر) (صحيح بخاري جلد نمبر 3 ص 832، محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص 383)

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے سفر میں گائے کی قربانی کی۔"

نمبر 7: (عن جابر بن عبدالله قال ضحيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم عيد بكبشين) (ابن ماجة باب اضاحي رسول الله صلي الله عليه وسلم ج 2 ص 271)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو مینڈھے قربانی کئے۔"

نمبر 8: (عن ابي بكرة ان النبي صلي الله عليه وسلم خطب ثم نزل فدعا بكبشين فذبحهما۔ هذا حديث صحيح) (تحفة الاحوذي جلد نمبر 2 ص 364)

"حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کا خطبہ پڑھا، پھر منبر سے اترے اور دو مینڈھے منگوائے اور ان کی قربانی کی۔"

نمبر 9: (عن بريدة قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتي يطعم ولا يطعم يوم الاضحيٰ حتي يصلي فياكل من اضحيته) (رواه احمد والترمذي و صححه ابن حبان، سبل السلام: جلد نمبر 2 ص 65)

"حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عید الفطر کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھائے بغیر نماز عید کے لئے نہیں نکلتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے تھے اور واپس آ کر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔"

نمبر 10: (عن ثوبان رضي الله عنه قال ذبح رسول الله صلي الله عليه وسلم ضحيته ثم قال يا ثوبان اصلح لحم هذه فلم ازل اطعمه منها حتي قدم المدينة) (صحيح مسلم جلد نمبر 2 ص 159 عون المعبود: جلد نمبر 3 ص 59)

"حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں اپنی قربانی ذبح فرمائی، پھر مجھے فرمایا کہ اس قربانی کا گوشت سنبھال رکھو۔ میں آپ کو برابر اس کا گوشت کھلاتا رہا تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔"

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قربانی کا عام رواج

نمبر 1: حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے لئے صحابہ کرام میں جانور تقسیم فرمائے۔ (صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص 832)

اور ترمذی کی حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ قربانی کے لئے بکریاں تقسیم فرمائیں۔ (تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 356)

نمبر 2: (عن البراء قال خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم في يوم نحر فقال لا يذبحن احدكم حتي يصلي) (ترمذي مع تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 359)

"حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: نماز عید ادا کرنے سے پہلے کوئی شخص قربانی نہ کرے۔"

نمبر 3: (عن ابن عباس قال كنا مع النبي صلي الله عليه وسلم في سفر فحضر الاضحيٰ فذبحنا البقرة عن سبعة والبعير عن عشرة) (رواه الخمسة الا ابا داؤد و حسنه الترمذي و يشهد له ما في الصحيحين من حديث رافع بن خديج انه صلي الله عليه وسلم قسم فعدل عشرا من الغنم ببعير۔ نيل الاوطار: جلد نمبر 5 ص 115، و تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 356)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے تو سفر ہی میں عید قربان آ گئی تو ہم نے گائے میں سات سات اور اونٹ میں دس دس آدمیوں نے مل کر قربانی دی۔"

نمبر 4: (قال ابو ايوب كان الرجل في عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم يضحي بالشاة الواحدة عند و عن اهل بيته فياكلون و يطعمون) (رواه الترمذي و صحيحه و ابن ماجة باب من ضحي بشاة عن اهله ج 2772 تفسير ابن كثير: جلد نمبر 3 ص 224، تحفة الاحوذي: جلد نمبر 2 ص 357)

"حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اس سے کھاتے اور کھلاتے تھے۔

قربانی کا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثبوت

نمبر 1: (عن محمد بن سيرين قال سألت ابن عمر عن الضحايا ا واجبة؟ قال ضحيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم والمسلمون من بعده وجرت به السنة) (ابن ماجة: ص 236)

"محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد والے مسلمانوں نے قربانی کی اور قربانی کی یادگار جاری ہے۔"

نمبر 2: (قال يحيٰ بن سعيد سمعت ابا امامة بن سهل قال كنا نسمن الاضحية بالمدينة وكان المسلمون يسمنون) (صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص 833 و ابن كثير: جلد نمبر 3 ص 219)

"یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ سے سنا انہوں نے کہا: ہم (یعنی صحابہ) مدینہ میں قربانیاں موٹی کرتے تھے، سب مسلمان بھی یہی کرتے تھے۔"

نمبر 3: عامر شعبی متوفی 104ھ جیسے کبیر تابعی، جنہیں پانچ سو صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات کا شرف حاصل ہے فرماتے ہیں:

(ادركت اصحاب محمد صلي الله عليه وسلم وهم متوافرون كانوا يذبحون البقرة والبعير عن سبعة) (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص نمبر 382)

"میں نے بہت سے صحابہ کو پایا ہے، وہ گائے اور اونٹ میں سات سات آدمی مل کر قربانی دیتے تھے۔"

نمبر 4: ابراہیم نخعی تابعی متوفی 96ھ فرماتے ہیں:

(كان اصحاب محمد صلي الله عليه وسلم يقولون البقرة والجزور عن سبعة) (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص نمبر 283)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات سات اجنبی حصہ داروں کی شراکت کے قائل تھے۔

نمبر 5: (امر ابو موسيٰ بناته ان يضحين بايديهم) (صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص نمبر 834)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی ذبح کریں۔

نمبر 6: حضرت عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم عید الاضحیٰ کے خطبہ میں عید اور قربانی کے مسائل بیان فرمایا کرتے تھے۔ (صحيح بخاري ج 2 ص 834 صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص نمبر ج 2 ص 157 و مسلم: جلد نمبر 2 ص نمبر 157)

نمبر 7: (عن نافع ان عبدالله بن عمر ضحي مرة بالمدينة قال نافع فامرني ان اشتري له كبشا فحيلا اقرن ثم اذبحه يوم الاضحيٰ في مصلي الناس قال نافع ففعلت ثم حمل الي عبدالله بن عمر وكان مريضا لم يشهد العيد مع المسلمين) (مؤطا امام مالك: ص نمبر 495)

"حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں قربانی کی۔ نافع کہتے ہیں کہ چنانچہ مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لئے موٹا تازہ سینگ دار مینڈھا خریدوں، پھر اسے عید الاضحیٰ کے روز عید گاہ میں ذبح کروں۔ میں نے ایسا ہی کیا، پھر وہ ذبح کیا ہوا مینڈھا آپ کے پاس پہنچا دیا اور آپ اس دن صاحب فراش تھے حتی کہ مسلمانوں کے ساتھ نماز عید میں بھی شرکت نہ کر سکے تھے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی نظر میں قربانی کی کس قدر اہمیت تھی کہ بیماری کی وجہ سے نماز عید میں شریک نہ ہو سکے، لیکن قربانی فوت نہیں ہونے دی۔

حاصل احادیث:

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ اور بکثرت دوسری احادیث جو طوالت کے خوف سے تحریر نہیں کی گئیں سب کی سب اپنے مضمون میں متفق ہیں اور ان سے دس نکات حاصل ہوتے ہیں۔

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا۔

2۔ خود وفات تک برابر دس سال اس پر عمل فرمایا اور اپنی وفات سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میری طرف سے قربانی کرتے رہنا۔ اللہ اکبر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے کس قدر پیار تھا۔

3۔ مسلمانوں میں اس کو سنت الاسلام اور شعار دین کی حیثیت سے رواج دیا۔

4۔ عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کے بعد قربانی ذبح کرنا سنت المسلمین ہے۔

5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم فرماتے تھے، تاکہ وہ بھی اس سنت پر عمل درآمد کی سعادتوں سے ہم کنار ہو سکیں۔

6۔ عید قربان کے دن عید گاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھانا چاہیے اور واپس آ کر اپنی قربانی کے گوشت کے ساتھ کھانا سنت ہے۔

7۔ سفر کے دوران بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی ترک کرنا گوارا نہ فرماتے تھے۔

8۔ اونٹ کی قربانی میں دس دس اور گائے کی قربانی میں سات سات حصہ داروں کی شرکت جائز ہے۔

9۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں قربانی کا عام رواج تھا، گویا قربانی افزائش نسل کا سبب بن گئی اور آج بھی اس طرز عمل سے مویشیوں کی نسل میں برکت آ سکتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ صرف شعائر اسلام پر اعتراض کرنا جانتے ہیں۔ عمل کرنا نہیں جانتے۔

10۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیماری کے باوجود قربانی فوت نہیں ہونے دیتے تھے۔

لہذا ثابت ہوا کہ قربانی کے منکرین کے اس دعویٰ میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو قربانی کا حکم نہیں دیا تھا۔ فافهم ولا تكن من القاصرين المعاندين۔

ملحوظہ:

یہ بھی ملحوظ رہے کہ کوئی ایک ضعیف سے ضعیف تر روایت بھی کہیں موجود نہیں ہے، جو یہ بتاتی ہو کہ عید قربان کی یہ قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات پھر جان لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں نہ کوئی عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے ان تمام احادیث میں ہے۔ بس اس عید اور قربانی کا بیان ہے۔ جو مکہ مکرمہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔

ایں رہ منزل قدس است میندیش وبیا

میل ازیں راہ خطا باشد بین تانکن

منکرین قربانی سے ایک سوال

سطور بالا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول و عمل میں سے ان چند احادیث و اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کو زیب قرطاس بنایا گیا ہے، جن سے بہ سہولت تام یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ عہد رسالت اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں قربانی کا تصور کیا تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ کیا تھا۔

یہ احادیث اصول روایت اور اصول درایت دونوں لحاظ سے اس قدر تسلی بخش ہیں کہ ان پر کوئی نقد و جرح ممکن نہیں۔

اب پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور ان جیسے دوسرے تحقیق گزیدہ دانشور جو آج مسئلہ قربانی کو اپنی اپنی نئی نئی تجویزوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مسلمانوں کو قربانی سے متنفر کرنے کے لئے ایک نیا اختراعی تصور پیش کرنے میں جتے ہوئے ہیں، وہ یا تو ثابت کریں کہ یہ تمام حدیثیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل واضح ہوتا ہے، سرے سے وضعی اور خانہ ساز ہیں اور ان احادیث کو (معاذاللہ) فلاں مولوی نے فلاں دور میں وضع کیا تھا یا کسی قدیم نوشتہ سے ان کو نقل کیا تھا۔ اور پھر انہیں بڑی چابک دستی کے ساتھ امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم رحمہم اللہ اور دیگر محدثین کے کانوں میں پھونک دیا تھا اور ان نیک دل ائمہ کرام نے بالاتفاق اور بے چوں چراں بغیر کسی تحقیق و تمحیص کے ان موضوع روایات کو اپنی کتابوں کی زینت بنا دیا بس یہ اصلیت ہے۔ مؤطا امام مالک، کتاب الام، الشافعی، مسند احمد، صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور سنن اربعہ کی ان روایات کی، اگر یہ بات ان تحقیق گزیدہ افراد سے ثابت نہ ہو سکے، اور وہ ہرگز ثابت نہ کر سکیں گے، تو پھر ان کو یہ بتانا چاہیے کہ مسئلہ قربانی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روشن طرز عمل کے ہوتے ہوئے ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ قربانی کے متعلق اپنا بناسپتی متبادل طرز عمل ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کرتے پھریں

مسلم از سر نبی بے گانہ شد

باز ایں بیت الحرام بت خانہ شد

قربانی اور فقہاء مذاہب کا اتفاق

مسئلہ قربانی کے متعلق فقہائے کرام کی رائے اور ان کے مذاہب مکمل شرح و بسط کے ساتھ ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور قربانی کی مشروعیت، یعنی اس کے شرعی حکم ہونے پر تمام فقہائے اسلام متفق ہیں۔ مؤلفین صحاح ستہ نے اپنی اپنی صحیح میں قربانی کے لئے مستقل باب باندھے ہیں۔ اور اس طرح حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور ظاہری مسلک کی کلیدی کتب میں بھی یہی انداز پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب الاضاحی یا کتاب الضحایا (قربانیوں کا باب) کے نام سے موسوم کئے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں فقہائے مذاہب کی متداول کتابوں میں کتاب الضحایا کو کتاب الذبائح (ذبیحوں) کے بیان کے بعد متصل لکھا گیا ہے۔

حالانکہ باب الہدی (حاجی کی قربانی کا باب) کو تمام فقہاء کتاب الحج میں لائے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ فقہائے مذاہب حاجی کے علاوہ تمام مسلمانوں کے لئے عام قربانی کے بھی قائل ہیں اور کتاب الضحایا میں وہ اس قربانی کے احکام درج کرتے ہیں اور قربانی کی اس قسم کو وہ حج یا مکہ کے ساتھ مخصوص نہیں جانتے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ باب بھی کتاب الحج کے ضمن میں مذکور ہوتا۔ اس ضروری وضاحت کے بعد ائمہ مذاہب کی آراء سامیہ ملاحظہ فرمائیں۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور قربانی

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں۔ (اما الوجوب يقول ابو حنيفة و محمد وزفر والحسن واحدي الروايتين عن ابي يوسف) ھدایہ: جلد نمبر 4 ص 443۔ "امام ابو حنیفہ، امام محمد، زفر، امام حسن اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف قربانی کو واجب کہتے ہیں۔"

مزید تفصیل کے لئے مبسوط سرخسی جلد نمبر 12 ص نمبر 7 بدائع الصنائع للکاسانی حنفی جلد نمبر 5 ص نمبر 61، 62 و فتح القدیر جلد نمبر 8 ص 425 و رد المختار جلد نمبر 6 ص نمبر 311 تا 313 عمدۃ القاری جلد نمبر 12 ص 142۔

امام مالک رحمہ اللہ

متوفی 179ھ فرماتے ہیں: (الضحية سنة وليست بواجبة ولا احب لاحد ممن قوي علي ثمنها ان تركها) (مؤطا امام مالك: ص نمبر 497)

"قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے اور جو شخص قربانی خرید سکتا ہے، اس کے لئے قربانی ترک کرنا اچھا نہیں۔"

بدایۃ المجتہد لابن رشد مالکی میں ہے: (وروي عن مالك مثل قول ابي حنيفة) (جلد نمبر 1 ص 314) اور امام مالک سے امام ابو حنیفہ کے موافق قول نقل کیا گیا ہے، یعنی وہ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔

مجدد شریعت امام شافعی رحمہ اللہ

متوفی 204ھ فرماتے ہیں: (الضحايا سنة لا نحب تركها)۔ (کتاب الام: جلد نمبر 2 ص نمبر 189)

"قربانیاں سنت ہیں۔ ہم قربانی کے ترک کو پسند نہیں کرتے۔"

مزید تفصیل نووی شرح صحیح مسلم: جلد نمبر 2 ص نمبر 153 اور نیل الاوطار: جلد نمبر 5 ص نمبر 126 میں ملاحظہ فرمائیں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ

(قال الشافعي و احمد هي مستحبة الا ان احمد قال لا يستحب تركها مع القدرة عليها) (الافصاح علي المذاهب الاربعة لابن هبيرة الحنبلي متوفي 560 جلد نمبر 1 ص نمبر 305)

"امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک قربانی مستحب ہے، تاہم امام احمد نے کہا ہے کہ استطاعت کے ہوتے ہوئے اس کا ترک مستحب امر نہیں۔" شیخ الاسلام موافق الدین ابن قوامہ حنبلی متوفی 662ھ نے قربانی کو سنت مؤکدہ لکھا ہے۔ (عمدة الاحكام مع شرح المفنع: جلد نمبر 1 ص نمبر 481)

امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ

متوفی 456ھ فرماتے ہیں: (ألاضحية سنة حسنة وليست فرضا ومن تركها غير واجب عنها فلا حرج عليه في ذلك) (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص نمبر 357)

"قربانی سنت حسنہ ہے، فرض نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی وقت اس نیت سے چھوڑ دے کہ یہ فرض نہیں تو اس کو اس عمل پر کوئی حرج نہیں ہو گا (البتہ سنت کا تارک ضرور ہو گا جو سراسر حرماں نصیبی ہے)

علامہ عبدالرحمٰن جزائری لکھتے ہیں:

(واما حكمها فهو السنة فالاضحية سنة مؤكدة يثاب فاعلها ولا يعاقب تاركها وهذا القدر متفق عليه في الحقيقة ولكن قالوا الحنفية انها سنة عين مؤكدة ولا يعذب تاركها بالنار) (الفقه علي المذاهب الاربعة، جلد نمبر 1 ص نمبر 716)

"قربانی سنت مؤکدہ ہے، قربانی کرنے والے کو ثواب ہو گا اور قربانی کے تارک کو عذاب نہ ہو گا، اتنی بات پر تو سب فقہاء کا اتفاق ہے، تاہم احناف کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ عینی ہے، تارک کے لئے وہ عذاب کے قائل نہیں۔"

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی شافعی ف 852ھ کا تفصیلی نوٹ

(ولا خلاف في كونها من شعائر الدين) (فتح الباري: ج 10 ص 2)

کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں کہ قربانی شعائر اسلام میں سے ہے۔

اور فقہاء اس شخص کو کافر کہتے ہیں جو اصل قربانی کا انکار کرے، چنانچہ علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں:

و يكفر بانكاره اصل الوتر والاضحية (البحر الرائق: ج 5 ص 131)

"اور وہ شخص کافر ہو جائے گا جو سرے سے وتر یا قربانی کا انکار کرے۔"

فرماتے ہیں ائمہ اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی شعائر اسلام سے ہے۔اختلاف صرف اتنا ہے کہ شوافع اور جمہور کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اور ایک روایت کے مطابق شوافع کے نزدیک فرض کفایہ ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے۔ مگر صرف آسودہ حال پر (مسافر اور حاجی پر نہیں) امام مالک کے نزدیک بھی یہی قول منقول ہے، ایک روایت کے مطابق۔

لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک مسافر پر بھی قربانی واجب ہے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ، امام ربیعہ رحمہ اللہ اور امام لیث سے بھی امام مالک کے قول کے مطابق فتویٰ منقول ہے۔

البتہ احناف میں سے امام یوسف اور مالکیہ میں سے امام الشہب رحمہ اللہ نے اپنے ائمہ سے اختلاف کرتے ہوئے جمہور سے اتفاق کیا ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا جس شخص میں قربانی دینے کی استطاعت ہو پھر اس کا قربانی نہ دینا مکروہ امر ہے۔ اور امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ سے روایت یوں ہے کہ قربانی سنت ہے لیکن اس سنت کے ترک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ (فتح الباري شرح صحيح بخاري جلد نمبر 10 ص 2)

شیخ احمد بن یحییٰ زیدی شیعہ

متوفی 840ھ لکھتے ہیں:

(وهي مشروعة اجماعا لقوله تعاليٰ (قرآني آيت) و قوله (عظموا ضحاياكم) و نحوه۔) (البحر الذخار جلد نمبر 5 ص نمبر 310)

کہ قربانی باجماع امت مشروع ہے۔ مزید لکھتے ہیں: (قلنا اخبارنا دليل علي انه للندب (البحر الزخار)) جلد نمبر 5 ص نمبر 311۔ ہماری پیش کردہ احادیث کے مطابق قربانی ایک مستحب امر ہے۔

شیخ صدوق محمد بن علی بن بالویہ القمی شیعہ متوفی 381ھ

(عن ابي جعفر قال ألاضحية واجبة علي من وجد من صغير او كبير وهي سنة من لا يضحره الفقيه۔ جلد نمبر 2 ص نمبر 292 باب الاضاحي)

حضرت ابو جعفر باقر فرماتے ہیں کہ قربانی سنت ہے اور چھوٹے بڑے صاحب استطاعت پر قربانی کرنا ضروری امر ہے۔

ان فقہی حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ قربانی کے مشروع اور مسنون ہونے پر تمام شیعہ سنی فقہائے اسلام کا اجماع و اتفاق ثابت ہے اور کسی ایک فقیہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ لہذا ثابت ہوا کہ پروفیسر صاحب کا دعویٰ نرا مغالطہ، سراسر دھوکہ اور مسلمانوں کو قربانی سے متنفر کرنے کی ایک عامیانہ جسارت ہے۔ اگر اب بھی ان کو اپنے اس ادعا پر ناز ہو تو پھر ہمیں بھی اپنے ان فقہاء کا اتہ پتہ دیں۔ جو قربانی کے مشروع اور مسنون ہونے کے قائل نہیں۔ کون ہیں؟ کتنے ہیں؟ سنی ہیں؟ یا شیعہ ہیں؟ سنی ہیں تو وہ فقہائے اہل حدیث میں سے ہیں یا فقہاء مذاہب اربعہ میں سے ہیں۔ اگر شیعہ ہیں تو کون سے ہیں؟ ان کا علمی چوکٹھا کیسا ہے؟ ان کا وہ کون سا فقہی سرمایہ ہے جس میں انہوں نے قربانی کی مشروعیت سے انکار یا اختلاف کیا ہے؟ تاکہ ہم بھی ان کے مؤقف کا جائزہ لے سکیں۔ (هاتو برهانكم ان كنتم صدقين)

لاؤ تو قتل نامہ ذرا ہم بھی دیکھ لیں

کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی

اور یہ بھی یاد رکھئے! مذکورہ بالا فقہائے اسلام کا یہ اجماع و اتفاق قربانی کے مشروع و مسنون امر ہونے پر بذات خود ایک مستقل اور ناقابل انکار شہادت ہے۔

کیونکہ ان فقہائے کرام کا زمانہ عہد نبوت اور عہد صحابہ سے اتنا قریب ہے کہ وہ بڑی آسانی سے شرعی احکام و مسائل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل معلوم کر سکتے تھے کہ تحقیق و تفحص کے تمام ذرائع موجود تھے۔

دیکھئے: ائمہ اربعہ کے زمانہ ولادت و وفات کا نقشہ یہ ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ولادت 80ھ وفات 150ھ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ولادت 93ھ وفات 179ھ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ولادت 150ھ وفات 204ھ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ولادت 164ھ اور وفات 241ھ ہے۔ مثلاً: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مسئلہ قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث صرف دو راویوں کے واسطہ سے نقل فرمائی ہے، یعنی امام مالک نے ابن زبیر مکی سے انہوں نے جابر بن عبداللہ سلمی رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث سنی۔ (مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ص نمبر 496)

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے قربانی کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و آثار صرف ایک واسطہ سے روایت کئے ہیں۔ یعنی امام مالک نے قربانی کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل اور ان کے آثار صرف ایک تابعی حضرت نافع کے واسطہ سے روایت کئے ہیں۔ (مؤطا ص نمبر 495 تا نمبر 497)

امام ابو حنیفہ تو امام مالک سے تیرہ برس بڑے ہیں، آپ کا مولد و مسکن شہر کوفہ رہا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ تھا۔

امام ابو حنیفہ کی ولادت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے درمیان صرف چالیس برس کا فاصلہ ہے۔ امام موصوف کے زمانے میں ایسے لوگ ہزار دو ہزار موجود تھے۔ جنہوں نے خلفائے راشدین کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صحبت پائی تھی۔ ایسے میں ان فقہاء کے بارے میں کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ان کو یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل آڑے آ سکتی تھی کہ قربانی کا یہ طرز عمل کب سے اور کیسے رائج ہوا اور کس نے اسے رواج دیا۔

یہی حالت پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہاء کی ہے۔ ان سب کا زمانہ عہد نبوت اور عہد صحابہ سے اتنا قریب تھا کہ ان کے لئے سنت اور بدعت کے درمیان تفریق کرنا یا امتیاز کرنا کوئی بڑا مشکل امر نہ تھا۔

اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو سکتے تھے کہ جو عمل سنت نہ ہو اسے سنت باور کر سکیں۔

امت کا تواتر عمل

قربانی کے مشروع و مسنون عمل ہونے پر اس شہادت کے علاوہ ایک اور اہم ترین شہادت امت کے متواتر عمل کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ اور اس کی قربانی جس روز سے شروع فرمائی اس روز سے وہ امت مسلمہ میں عملاً رواج پا گئی۔

اور اس تاریخ سے آج تک دنیا کے تمام اطراف و اکناف میں تمام مسلمان ہر سال مسلسل اس پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے چودہ سو انتیس سال کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہر نسل نے پہلی نسل سے اس کو سنت المسلمین کے طور پر لیا ہے اور اپنے سے بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی عالمگیر سنت ہے جو ایک ہی انداز میں دنیا کے ہر شہر اور ہر قریہ میں اور محلہ میں ادا ہوتی چلی آ رہی ہے۔

اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے، جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہوئی۔

دراصل یہ ویسا ہی تواتر ہے۔ جس تواتر کے برتے پر ہم نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب مانا ہے اور عرب کے در یتیم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول تسلیم کیا ہے۔

کوئی فتنہ گر اس تواتر کو بھی اگر مشکوک قرار دینے کی ٹھان لے تو پھر اسلام میں کون سی چیز شر سے محفوظ رہ سکتی ہے

ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ

ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا

مختصر یہ کہ قربانی کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا ہو جس میں کسی معتمد علیہ فقیہ نے قربانی ایسی سنت مؤکدہ کو مشکوک ٹھہرایا ہو۔ الحمدلله علي ذلك

مغالطہ نمبر 5:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث نے اپنی تمام زندگی میں عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی نہیں کی۔ محض اس لئے کہ پیروکار یہ نہ سمجھ لیں کہ قربانی ایک واجب عبادت ہے۔ (محليٰ ابن حزم جلد نمبر 7 ص 358)

جواب: اس اثر سے یہ استدلال کرنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عید الاضحیٰ کی قربانی کی مشروعیت محل نظر تھی، بوجوہ غلط محض اور سراسر خلاف واقعہ ہے۔

نمبر 1: اول اس لئے کہ چونکہ امام ربیعہ، امام ثوری، امام لیث، امام اوزاعی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم قربانی کے وجوب کے قائل تھے، لہذا امام ابن حزم رحمہ اللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ وغیرھم صحابہ کے یہ آثار پیش کر کے قائلین وجوب کے علی الرغم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قربانی کا وجوب ثابت نہیں، جیسا کہ موصوف اس صفحہ پر یہ تصریح فرماتے ہیں: (لا يصح عن احد من الصحابة ان الاضحية واجبة) (المحليٰ: جلد نمبر 7 ص نمبر 358)

امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے۔ (كتاب الام: جلد نمبر 2 ص نمبر 189)

جیسا کہ یہ حقیقت آپ کے پیش کردہ ترجمہ کی خط کشیدہ عبارت سے بھی صاف واضح ہے۔ جس پر آپ نے نہ جانے کیوں غور نہیں فرمایا۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر متوفی 1182ھ نے بھی ان آثار کا یہی مطلب متعین فرمایا ہے۔

(وافعال الصحابة دالة علي عدم الايجاب) (سبل السلام: جلد نمبر 4 ص نمبر 91)

"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ طرز عمل قربانی کے عدم وجوب پر دلالت کرتا ہے۔"

قربانی سنت مؤکدہ ہے

ثانی اس لئے کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور فقہاء کی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی عید الاضحیٰ کی قربانی کا سنت مؤکدہ ہونا ثابت ہے، جیسا کہ:

نمبر 1: امام نووی متوفی 676ھ تصریح فرماتے ہیں کہ صاحب استطاعت پر عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی ذبح کرنا سنت ہے۔ حضرت ابوبکر، عمر، بلال، ابو مسعود اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہم، علقمہ، اسود، عطاء وغیرہ تابعین اور امام مالک، امام احمد، امام ابو یوسف، امام اسحاق، امام ابو ثور، امام مزنی، امام ابن منذر اور امام ابو داؤد ظاہری رحمہم اللہ وغیرہ فقہاء کا یہی مذہب ہے۔ (نووي: جلد نمبر 2 ص نمبر 153)

نمبر 2: امام ابن قدامہ مقدسی متوفی 672ھ لکھتے ہیں کہ اکثر اہل علم کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، فقہاء میں سے امام شافعی اور امام اسحاق رحمہما اللہ وغیرہ فقہاء سے یہی مروی ہے۔ (مغني ابن قدامه مع شرح الكبير: جلد نمبر 2 ص نمبر 581)

نمبر 3: شیخ احمد بن یحییٰ زیدی شیعہ متوفی 540ھ لکھتے ہیں:

مسئلہ: (عم ابو مسعود البدری بلال، ابن مسیب عطاء علقمہ الاسود) ثم (و مدحق س فر) هي سنة موكدة (البحر الذخار جلد نمبر 5 ص 311) حضرت ابوبکر، حضرت عمر، عبداللہ بن عمر، ابو مسعود بدری اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم، سعید بن مسیب، عطاء، علقمہ، عترت، احمد بن حنبل، اسحاق، شافعی، ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے۔

مزید تفصیل نیل الاوطار جلد نمبر 5 ص نمبر 126 میں پڑھئے۔

نمبر 4: امام محمد بن اسماعیل الامیر۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس اور بلال کے آثار پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (والروايات عن الصحابة في هذا المعنيٰ كثيرة دالة علي انها سنة) (سبل السلام جلد نمبر 4 ص 91) "صحابہ کرام سے ایسی بہت سی روایات مروی ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ عید الاضحیٰ کی قربانی سنت مؤکدہ ہے۔

ثالث: اس لئے کہ آپ کی پسندیدہ کتاب محلیٰ ابن حزم میں ہے کہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ وغیرہ 12 ذوالحج تک قربانی ذبح کرنے کے جواز کے قائل تھے۔ (محليٰ: جلد نمبر 7 ص 378)

ب: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات سات حصہ داروں کی شراکت کے قائل تھے۔ (ان اصحاب محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم الذين بالكوفة افتوني فقالوا نعم قاله النبي صلي الله عليه وسلم) (محليٰ ابن حزم: جلد نمبر 7 ص 382)

علاوہ ازیں حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم عید الاضحیٰ کے خطبہ میں قربانی کے مسائل بیان فرماتے تھے۔ (صحيح بخاري: جلد نمبر 2 ص نمبر 835 و صحيح مسلم: جلد نمبر 2 ص نمبر 157)

سوال یہ ہے کہ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی اپنی زندگی بھر عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی نہیں کرتے تھے تو پھر وہ تین دن تک قربانی کے قائل کیوں تھے؟ گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات سات اجنبی حصہ داروں کی شراکت کا فتویٰ کس بنا پر دیتے تھے؟ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع عید الاضحیٰ کے خطبہ میں قربانی کو جو مسائل بیان فرماتے تھے۔ کیا یہ محض دل بہلاوا تھا۔ اگر آپ محلیٰ کی کتاب الاضاحی پر ایک سرسری نظر ڈال لینے کی زحمت گوارا فرما لیتے تو آپ کو ان مغالطوں اور غلط بیانیوں سے نجات مل جاتی اور انکار سنت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بھی بچ جاتے۔

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

رابع: اس لئے کہ اس اثر میں ایسا کوئی جملہ موجود نہیں جس کا ترجمہ زندگی بھر کیا جا سکے، بلکہ یہ الفاظ پروفیسر نے اپنی طرف سے ایجاد کئے ہیں، محلیٰ ابن حزم کے الفاظ میں ترک قربانی کی مدت بیان نہیں کی گئی۔

تاہم مبسوط سرخسی میں اس کی کل مدت سال دو سال بیان کی گئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں:

(وعن ابي بكر و عمر رضي الله عنهما كانا لا يضحيان السنة والسنتين مخافة ان يراها الناس واجبة) (مبسوط جلد نمبر 12 ص نمبر 10) نیز بدائع الصنائع جلد نمبر 5 ص نمبر 62 اور فتح القدیر جلد نمبر 8 ص نمبر 428 میں حنفی علماء نے یہی لکھا ہے۔

خامس: اس لئے کہ مانا کہ شیخین نے زندگی بھر کبھی قربانی نہیں کی، لہذا بغرض تسلیم ان کا یہ فعل چونکہ احادیث صحیحہ مذکورہ بالا کے خلاف ہے۔ لہذا ان کا یہ فعل شرعاً حجت نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص633

محدث فتویٰ

تبصرے