سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25)پرانی مسجدوں کے پتھروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا

  • 26273
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 850

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک انتہائی قدیم ترین مسجد ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے سیلابوں نے بھی اس کی عمارت کو بے حد شکستہ اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی قبر بھی ہو تو کیا ایسی صورت میں کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کے پتھروں کو اپنے گھر منتقل کر کے ذاتی ملکیت بنا لے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی مسجد سیلاب یا دیگر اسباب کی وجہ سے خراب ہو جائے تو اہل محلہ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کریں اور اس میں اقامت نماز کا اہتمام کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ) (صحيح ابن خزيمة: 2/268‘ ح: 1291 واصله في الصحيحين انظر صحيح البخاري‘ ح:450 وصحيح مسلم‘ ح: 533)

’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(أَمَرَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم بِبِنَاءِ المَساجِدِ في الدُّورِ وأن تُنَظَّفَ و تُطَيَّبَ) (مسند احمد : 279/6 وسنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب اتخاذ المساجد في الدور‘ ح: 455)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف ستھرا  رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔‘‘

اس حدیث میں ’’دور‘‘کے لفظ سے مراد قبائل اور محلے وغیرہ ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کی فضیلت کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ اگر محلہ میں کوئی اور مسجد ہو جس کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو پھر اس مسجد کی اینٹیں اور پتھر کسی دوسرے محلہ یا شہر کی ضرورت مند مسجد کے لیے استعمال کیے جائیں۔

مذکورہ مسجد جس شہر میں ہے اس کے حاکم، قاضی امیر یا سردار قبیلہ پر فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے اور اس کے پتھروں کو دیگر ضرورت والی مساجد میں منتقل کر دے یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کر دے۔ اہل شہر میں سے کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ حاکم کی اجازت  کے بغیر اس مسجد کی کسی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے اور اگر اس مسجد میں کوئی قبر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس قبر کو یہاں سے ہٹا دیا جائے اور اس میں موجود ہڈیوں کو۔۔۔ اگر وہ موجود ہوں۔۔۔ شہر کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے کیونکہ شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ مسجدوں میں قبریں ہوں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنائی جائیں کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ اور قبروں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اصحاب قبور کے بارےمیں غلو سے کام لینے کی وجہ سے صدیوں سے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا تھا جو اس جگہ موجود تھیں، جہاں مسجد

 نبوی تعمیر کی گئی۔[1] صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور‘ ح: 1230 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور...االخ‘ ح:529)

’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔‘‘

صحیح مسلم میں ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ , وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن الجلوس علي القبر والصلاة عليه‘ ح: 972)

’’قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔‘‘

صحیح مسلم ہی میں جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ) (صحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المساجد علي القبور... الخ‘ ح:532)

’’تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحا ءکی قبروں کو مسجدیں  بنا لیتے تھے، خبردار تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

صحیحین میں حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک گرجے کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں بنی ہوئی تصویروں کو بھی دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أُولَئِكَ إِذَا مَاتَ مِنْهُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ ) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب بناء المسجد علي المسجد‘ ح:428‘ 1341 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور‘ ح:528)

’’ ان لوگوں میں سے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں اس طرح کی تصویریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری مخلوق میں سے بدترین شمار ہوتے ہیں۔‘‘

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ يقْعد عَلَيْهِ وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن تجصيص القبر... الخ‘ ح: 970)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت (مقبرہ وغیرہ) بنائی جائے۔‘‘

اور صحیح سند کے ساتھ ترمذی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:

( وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا) (جامع الترمذي‘ الجنائز‘ باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور‘ ح: 1052)

’’آپ نے قبروں پر لکھنے سے بھی منع فرمایا۔‘‘

یہ اور اس مضمون کی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ قبروں پر عمارتیں بنانا، مسجدیں بنانا، ان میں نماز پڑھنا اور قبروں کو پختہ بنانا حرام ہے کیونکہ یہ اصحاب قبور کے ساتھ شرک کے اسباب میں سے ہے۔ اسی طرح قبروں پر غلاف اور چادریں چڑھانا، ان پر لکھنا، ان پر خوشبو لگانا اور عود سلگانا بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ یہ سب کچھ غلو اور شرک کے اسباب و وسائل میں سے ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خود بھی ان تمام کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، خصوصا حکمرانوں کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے، کیونکہ ان کے فرائض اور ذمہ داریاں دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہیں کیونکہ انہیں ان منکرات کا ازالہ کی زیادہ قوت و طاقت حاصل ہے۔ حکمرانوں کی سستی اور بہت سے اہل علم کی خاموشی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ممالک میں ان خرابیوں کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کی خوب گرم بازاری ہے اور آج مسلمان بھی اسی طرح شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں جس طرح لات، عزٰی اور منات کے پجاری، اہل جاہلیت مبتلا تھے اور مسلمان بھی آج وہی بات کہتے ہیں جو اہل جاہلیت کہتے تھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ان کا قول نقل فرمایا ہے (وہ کہا کرتے تھے) :

(هَـٰٓؤُلَآءِ شُفَعَـٰٓؤُنَا عِندَ ٱللَّهِ ۚ) (یونس 10/18)

’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘

اور فرمایا: (مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ) (الزمر 39/3)

’’ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘

اہل علم نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر قبر مسجد میں بنائی گئی ہو تو اس قبر کو اکھاڑنا اور مسجد سے دور کرنا ضروری ہے اور اگر مسجد بعد میں بنائی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کر دینا ضروری ہے کیونکہ یہ مسجد ایک امر منکر کا باعث بنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اس وجہ سے یہود و نصاری پر لعنت کی اور امت کو ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا:

(أَنْ لَا تَدَعْ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب الامر بتسوية القبر‘ ح:969)

’’جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور اونچی قبر دیکھو اسے برابر کر دو۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے، قائدین کی اصلاح فرمائے، مسلمانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے، شریعت کے مطابق حکومت چلانے کی توفیق سے نوازے اور مخالف شریعت امور سے بچائے۔

 


[1] ۔صحيح بخاري‘ الصلاة‘ باب هل نبشت قبور مشركي الجاهلية‘ حديث: 428 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب ابتناء مسجد النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث: 524

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ36

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ