سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(341) کیا رشتہ داروں کے انتظار کی وجہ سے تدفین میں تاخیر جائز ہے ؟

  • 26269
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 703

سوال

(341) کیا رشتہ داروں کے انتظار کی وجہ سے تدفین میں تاخیر جائز ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دور دراز کے مقامات سے بعض رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے میت کے دفن میں تاخیر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَد ِّمُونَہَا الیہ وَإِنْ تکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ)) (صحیح البخاري، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح:۱۳۱۵، وصحیح مسلم، الجنائز، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح: ۹۴۴۔)

’’جنازہ میں جلدی کرو۔ میت اگر نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور میت اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔‘‘

بعض اہل خانہ کی حاضری کی وجہ سے میت کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، البتہ چند گھنٹے انتظار کیا جا سکتا ہے ورنہ افضل یہی ہے کہ اس کی تدفین جلد عمل میں لائی جائے۔ اہل خانہ اگر تاخیر سے پہنچیں تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھ لیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والے اس مرد یا عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ نے فرمایا:

((دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِہِ)) (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحیح مسلم، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ لہ۔)

’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکر ادافرمائی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ333

محدث فتویٰ

تبصرے